میں ہوں خاک افتادہ جس آزار کا
عشق بھی اس کا ہے نام اک پیار کا
بیچتا سرکیوں نہ گلیوں میں پھروں
میں ہوں خواہاں لطف تہ بازار کا
خون کر کے ٹک نہ دل ان نے لیا
کشتہ و مردہ ہوں اس اصرار کا
گھر سے وہ معمار کا جو اٹھ گیا
حال ابتر ہو گیا گھر بار کا
نقل اس کی بے وفائی کی ہے اصل
کب وفاداری ہے شیوہ یار کا
سر جو دے دے مارتے گھر میں پھرے
رنگ دیگر ہے در و دیوار کا
اک گدائے در ہے سیلاب بہار
غم کشوں کے دیدۂ خونبار کا
دلبراں دل جنس ہے گنجائشی
اس میں کچھ نقصاں نہیں سرکار کا
عشق کا مارا ہے کیا پنپے گا میرؔ
حال ہے بدحال اس بیمار کا
No comments:
Post a Comment