دل دماغ و جگر یہ سب اک بار
کام آئے فراق میں اے یار
کیوں نہ ہو ضعف غالب اعضا پر
مر گئے ہیں قشون کے سردار
گل پژمردہ کا نہیں ممنون
ہم اسیروں کا گوشۂ دستار
مت نکل گھر سے ہم بھی راضی ہیں
دیکھ لیں گے کبھو سر بازار
سینکڑوں حرف ہیں گرہ دل میں
پر کہاں پایئے لب اظہار
سیر کر دشت عشق کا گلشن
غنچے ہو ہو رہے ہیں سو سو خار
روز محشر ہے رات ہجراں کی
ایسی ہم زندگی سے ہیں بیزار
بحث نالہ بھی کیجیو بلبل
پہلے پیدا تو کر لب گفتار
چاک دل پر ہیں چشم صد خوباں
کیا کروں یک انار و صد بیمار
شکر کر داغ دل کا اے غافل
کس کو دیتے ہیں دیدۂ بیدار
گو غزل ہو گئی قصیدہ سی
عاشقوں کا ہے طول حرف شعار
No comments:
Post a Comment