جس رفتنی کو عشق کا آزار ہو گیا
دوچار دن میں برسوں کا بیمار ہو گیا
نسبت بہت گناہوں کی میری طرف ہوئی
نا کردہ جرم میں تو گنہگار ہو گیا
حیرت زدہ میں عشق کے کاموں کا یار کے
دروازے پر کھڑے کھڑے دیوار ہو گیا
پھیلے شگاف سینے کے اطراف درد سے
کوچہ ہر ایک زخم کا بازار ہو گیا
بازار میں جہان کے ہے حسن کیا متاع
سو جی سے جس نے دیکھا خریدار ہو گیا
دل لے کے میری جان کا دشمن ہوا ندان
جس بے وفا سے اپنے تئیں پیار ہو گیا
عاشق کو اس کی تیغ سے ہے لاگ کھنچتے ہی
یہ کشتنی بھی مرنے کو تیار ہو گیا
مرتے موا رہا نہ ہوا تنگ ہی رہا
پھندے میں عشق کے جو گرفتار ہو گیا
کیا جرم تھا کسو پہ نہ معلوم کچھ ہوا
جو میرؔ کشت و خوں کا سزاوار ہو گیا
No comments:
Post a Comment