راجندر سنگھ بیدی
میں نے مایا کو پتھر کے ایک کوزے میں مکھّن رکھتے
دیکھا۔ چھاچھ کی کھٹاس کو دور کرنے کے لیے مایا نے کوزے میں پڑے ہوئے مکھن کو
کنویں کے صاف پانی سے کئی بار دھویا۔ اس طرح مکھن کے جمع کرنے کی کوئی خاص وجہ
تھی۔ ایسی بات عموماً مایا کے کسی عزیز کی آمد کا پتا دیتی تھی۔ ہاں ! اب مجھے یاد
آیا۔ دو دن کے بعد مایا کا بھائی اپنی بیوہ بہن سے راکھی بندھوانے کے لیے آنے والا
تھا۔ یوں تو اکثر بہنیں بھائیوں کے ہاں جا کر انھیں راکھی باندھتی ہیں مگر مایا کا
بھائی اپنی بہن اور بھانجے سے ملنے کے لیے خود ہی آ جایا کرتا تھا اور راکھی
بندھوا لیا کرتا تھا۔ راکھی بندھوا کروہ اپنی بیوہ بہن کو یہی یقین دلاتا تھا کہ
اگرچہ اس کا سہاگ لٹ گیا ہے مگر جب تک اس کا بھائی زندہ ہے، اس کی رکھشا، اس کی
حفاظت کی ذمے داری اپنے کندھوں پر لیتا ہے۔ ننھے بھولے نے میرے اس خیال کی تصدیق
کر دی۔ گنّا چوستے ہوئے اُس نے کہا: ’’ بابا ! پرسوں ماموں جی آئیں گے نا۔۔۔۔؟‘‘
میں نے اپنے پوتے کو پیار سے گود میں اٹھا لیا۔
بھولے کا جسم بہت نرم و نازک تھا اور اس کی آواز بہت سُریلی تھی۔ جیسے کنول کی
پتیوں کی نزاکت اور سفیدی، گلاب کی سرخی اور بلبل کی خوش الحانی کو اکھٹا کر دیا
ہو۔ اگرچہ بھولا میری لمبی اور گھنی داڑھی سے گھبرا کر مجھے اپنا منھ چومنے کی
اجازت نہ دیتا تھا تاہم میں نے زبردستی اس کے سُرخ گالوں پر پیار کی مہر ثبت کر
دی۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا : ’’ بھولے تیرے ماموں جی تیری ماتا جی کے کیا ہوتے
ہیں ؟‘‘بھولے نے کچھ وقت کے بعد جواب دیا ’’ ماموں جی !‘‘
مایا نے استوتر پڑھنا چھوڑ دیا اور ہنسنے لگی۔ میں
اپنی بہو کے اس طرح کھل کر ہنسنے پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا۔ مایا بیوہ تھی اور
سماج اسے اچھے کپڑے پہننے اور خوشی کی بات میں حصہ لینے سے بھی روکتا تھا۔ میں نے
بار ہا مایا کو اچھے کپڑے پہننے ہنسنے کھیلنے کی تلقین کرتے ہوئے سماج کی پروانہ
کرنے کے لیے کہا تھا۔ مگر مایا نے خو د اپنے آپ کو سماج کے روح فرسا احکام کے تابع
کر لیا تھا۔ اس نے اپنے تمام اچھے کپڑے اور زیورات کی پٹاری ایک صندوق میں مقفّل
کر کے چابی ایک جوہڑ میں پھینک دی تھی۔
مایا نے ہنستے ہوئے اپنا پاٹھ جاری رکھا۔
ہری ہری ہری ہر، ہری ہر، ہری
میر ی بار دیر کیوں اتنی کری
پھر اس نے اپنے لال کو پیار سے بلاتے ہوئے کہ
’’بھولے!۔۔ تم ننھی کے کیا ہوتے ہو ؟‘‘
’’ بھائی
!‘‘ بھولے نے جواب دیا۔
’’ اسی
طرح تیرے ماموں جی میرے بھائی ہیں۔‘‘
بھولا یہ بات نہ سمجھ سکا کہ ایک ہی شخص کس طرح
ایک ہی وقت میں کسی کا بھائی اور کسی کا ماموں ہو سکتا ہے۔ وہ تو اب تک یہی سمجھتا
آیا تھا کہ اس کے ماموں جان اس کے بابا جی کے بھی ماموں جی ہیں۔ بھولے نے اس مخمصے
میں پڑنے کی کوشش نہ کی اور اچک کر ماں کی گود میں جا بیٹھا اور اپنی ماں سے گیتا
سننے کے لیے اصرار کرنے لگا۔ وہ گیتا محض اس وجہ سے سنتا تھا کہ وہ کہانیوں کا
شوقین تھا اور گیتا کے ادھیائے کے آخر میں مہاتم سن کر وہ بہت خوش ہوتا اور پھر
جوہڑ کے کنارے پھیلی ہوئی دوپ کی مخملی تلواروں میں بیٹھ کر گھنٹوں ان مہاتموں پر
غور کیا کرتا۔
مجھے دوپہر کو اپنے گھر سے چھے میل دور اپنے
مزارعوں کو ہل پہنچانے تھے۔ بوڑھا جسم، اس پر مصیبتوں کا مارا ہوا، جوانی کے عالم
میں تین تین من بوجھ اٹھا کر دوڑا کیا۔ مگر اب بیس سیر بوجھ کے نیچے گردن پچکنے
لگتی ہے۔ بیٹے کی موت نے امید کو یاس میں تبدیل کر کے کمر تو ڑ دی تھی۔ اب میں
بھولے کے سہارے ہی جیتا تھا ورنہ دراصل تو مر چکا تھا۔
رات کو میں تکان کی وجہ سے بستر پر لیٹتے ہے
اونگھنے لگا۔ ذرا توقف کے بعد مایا نے مجھے دودھ پینے کے لیے آواز دی۔ میں اپنی
بہو کی سعادت مندی پر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور اسے سنکڑوں دعائیں دیتے ہوئے
میں نے کہا : ’’ مجھ بوڑھے کی اتنی پروانہ کیا کرو بٹیا۔‘‘
بھولا ابھی تک نہ سویا تھا اس نے ایک چھلانگ لگائی
اور میرے پیٹ پر چڑھ گیا۔ بولا : ’’ بابا جی ! آپ آج کہانی نہیں سنائیں گے کیا ؟‘‘
نہیں بیٹا۔‘‘ میں نے آسمان پر نکلے ہوئے ستاروں کو
دیکھتے ہوئے کہا : ’’ میں آج بہت تھک گیا ہوں۔ کل دوپہر کو تمھیں سناؤں گا۔‘‘
بھولے نے روٹھتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ میں تمھارا
بھولا نہیں بابا۔ میں ماتا جی کا بھولا ہوں۔‘‘
بھولا بھی جانتا تھا کہ میں نے اس کی ایسی بات
کبھی برداشت نہیں کی۔ میں ہمیشہ اس سے یہی سننے کا عادی تھا کہ ’’بھولا بابا جی
کاہے اور ماتا جی کا نہیں ‘‘ مگر اس دن ہلوں کا کندھے پر اٹھا کر چھے میل تک لے
جانے اور پیدل ہی واپس آنے کی وجہ سے میں بہت تھک گیا تھا۔ شاید میں اتنا نہ
تھکتا، اگر میرا نیا جوتا ایڑی کو نہ دباتا اور اس وجہ سے میرے پاؤں میں ٹیسیں نہ
اٹھتیں۔ اس غیر معمولی تھکن کے باعث میں نے بھولے کی وہ بات بھی برداشت کی۔ میں
آسمان پر ستاروں کو دیکھنے لگا۔ آسمان کے جنوبی گوشے میں ایک ستارہ مشعل کی طرح
روشن تھا۔ غور سے دیکھنے پر وہ مدھم سا ہونے لگا۔ میں اونگھتے اونگھتے سوگیا۔
صبح ہوتے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ بھولا سوچتا
ہو گا کہ کل رات بابا نے میری بات کس طرح برداشت کی ؟ میں اس خیال سے لرز گیا کہ
بھولے کے دل میں کہیں یہ خیال نہ آیا ہو کہ اب بابا میری پروا نہیں کرتے۔ شاید یہی
وجہ تھی کہ صبح کے وقت اس نے میری گود میں آنے سے انکار کر دیا اور بولا :
’’ میں
نہیں آؤں گا۔تیرے پاس بابا ؟‘‘
’’ کیوں
بھولے ؟‘‘
’’ بھولا
بابا جی کا نہیں۔ بھولا ماتا جی کا ہے۔‘‘
میں نے بھولے کو مٹھائی کے لالچ سے منا لیا اور
چند ہی لمحات میں بھولا بابا جی کا بن گیا اور میری گود میں آ گیا اور اپنی ننھی
ٹانگوں کے گرد میرے جسم سے لپٹے ہوئے کمبل کو لپیٹنے لگا۔ مایا ہری ہر استو تر پڑھ
رہی تھی۔ پھر اس نے پاؤ بھر مکھّن نکالا اور اسے کوزے میں ڈال کر کنویں کے صاف
پانی سے چھا چھ کی کھٹاس کو دھو ڈالا۔ اب مایا نے اپنے بھائی کے لیے سیر کے قریب
مکھّن تیار کر لیا۔ میں بہن بھائی کے اس پیار کے جذبے پر دل ہی دل میں خوش ہو رہا
تھا۔ اتنا خوش کہ میری آنکھوں میں آنسو ٹپک پڑے۔ میں نے دل میں کہا : عورت کا دل
محبت کا ایک سمندر ہوتا ہے کہ ماں، باپ، بھائی بہن، خاوند بچے سب سے وہ بہت ہی
پیار کرتی ہے اور اتنا کرنے پر بھی وہ ختم نہیں ہوتا۔ ایک دل کے ہوتے ہوئے بھی وہ
سب کو اپنا دل دے دیتی ہے۔ بھولے نے دونوں ہاتھ میرے گالوں کی جھریوں پر رکھے۔
مایا کی طرف سے چہرے کو ہٹا کر اپنی طرف کر لیا اور بولا :
’’ بابا
تمھیں اپنا وعدہ یاد ہے نا۔۔؟‘‘
’’ کس
بات کا۔۔۔بیٹا ؟‘‘
’’ تمھیں
آج دوپہر کو مجھے کہانی سنانی ہے۔‘‘
’’ ہاں
بیٹا۔۔!‘‘ میں نے اس کا منھ چومتے ہوئے کہا
یہ تو بھولا ہی جانتا ہو گا کہ اس نے دوپہر کے آنے
کا کتنا انتظار کیا۔ بھولے کو اس بات کا علم تھا کہ بابا جی کے کہانی سنانے کا وقت
وہی ہوتا ہے جب وہ کھانا کھا کر اس پلنگ پر جا لیٹتے ہیں جس پر وہ بابا جی یا ماتا
جی کی مدد کے بغیر نہیں چڑھ سکتا تھا۔ چنانچہ وقت سے آدھ گھنٹہ پیشتر ہی اس نے
کھانا نکلوانے پر اصرار شروع کر دیا۔ میرے کھانے کے لیے نہیں بلکہ اپنی کہانی سننے
کے چاؤ سے۔
میں نے معمول سے آدھ گھنٹہ پہلے کھانا کھایا۔ ابھی
آخری نوالہ میں نے توڑا ہی تھا کہ پٹواری نے دروازے پر دستک دی۔ اس کے ہاتھ میں
ایک ہلکی سے جریب تھی۔ اس نے کہا کہ خانقاہ والے کنویں پر آپ کی زمین کو ناپنے کے
لیے مجھے آج ہی فرصت مل سکتی ہے، پھر نہیں۔
دالان کی طرف نظر دوڑائی تو میں نے دیکھا۔ بھولا
چار پائی کے چاروں طرف گھوم کر بستر بچھا رہا تھا۔ بستر بچھانے کے بعد اس نے ایک
بڑا سا تکیہ بھی ایک طرف رکھ دیا اور خود پائینتی میں پاؤں اڑا کر چار پائی پر
چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اگرچہ بھولے کا مجھے اصرار سے جلد روٹی کھلانا اور بستر
بچھا کر میری تواضع کرنا اپنی خود غرضی پر مبنی تھا تاہم میرے خیال میں آیا۔
’’آخر
مایا ہی کا بیٹا ہے نہ۔۔۔ایشور اس کی عمر دراز کرے۔‘‘
میں نے پٹواری سے کہا، تم خانقاہ والے کنویں کو
چلو اور میں تمھارے پیچھے پیچھے آ جاؤں گا۔ جب بھولے نے دیکھا کہ میں باہر جانے کے
لیے تیار ہوں تو اس کا چہرہ اس طرح مدھم پڑ گیا جیسے گزشتہ شب کو آسمان کے ایک
کونے میں مشعل کی مانند روشن ستارہ مسلسل دیکھتے رہنے کی وجہ سے ماند پڑ گیا تھا۔
مایا نے کہا :
’’ بابا
جی، اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ ؟ خانقاہ والا کنواں کہیں بھاگا تو نہیں جاتا۔۔ آپ کم
سے کم آرام تو کر لیں۔‘‘
اوہوں۔‘‘ میں نے زیر لب کہا ’’ پٹواری چلا گیا تو
پھر یہ کام ایک ماہ سے ادھر نہ ہو سکے گا۔‘‘
مایا خاموش ہو گئی۔بھولا منھ بسورنے لگا۔ اس کی
آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ اس نے کہا: ’’ بابا میری کہانی۔۔۔میر ی کہانی۔۔۔‘‘
’’ بھولے۔۔۔میرے
بچے ؟ میں نے بھولے کو ٹالتے ہوئے کہا۔‘‘ دن کو کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول
جاتے ہیں۔‘‘
’’ راستہ
بھول جاتے ہیں !‘‘ بھولے نے سوچتے ہوئے کہا۔’’بابا تم جھوٹ بولتے ہو۔۔۔میں بابا جی
کا بھولا نہیں بنتا۔‘‘
اب جب کہ میں تھکا ہوا بھی نہیں تھا اور پندرہ بیس
منٹ آرام کے لیے نکال سکتا تھا، بھلا بھولے کی اس بات کو آسانی سے کس طرح برداشت
کر لیتا۔ میں نے اپنے شانے سے چادر اتار کر چار پائی کی پائینتی پر رکھی اور اپنی
دبی ہوئی ایڑی کو جوتی کی قید با مشقت سے نجات دلاتے ہوئے پلنگ پر لیٹ گیا۔ بھولا
پھر اپنے بابا کا بن گیا۔ لیٹتے ہوئے میں نے بھولے سے کہا : ’’ اب کوئی مسافر راستہ
کھو بیٹھے۔۔تو اس کے تم ذمے دار ہو:‘‘
اور میں نے بھولے کو دوپہر کے وقت سات شہزادوں اور
سات شہزادیوں کی ایک لمبی کہانی سنائی۔ کہانی میں ان کی باہمی شادی کو میں نے
معمول سے زیادہ دلکش انداز میں بیان کیا۔ بھولا ہمیشہ اس کہانی کو پسند کرتا تھا
جس کے آخر میں شہزادہ اور شہزادی کی شادی ہو جائے مگر میں نے اس روز بھولے کے منھ
پر خوشی کی کوئی علامت نہ دیکھی بلکہ وہ ایک افسردہ سا منھ بنائے خفیف طور پر
کانپتا رہا۔
اس خیال سے کہ پٹواری خانقاہ والے کنویں پر انتظار
کرتے کرتے تھک کر اپنی ہلکی ہلکی جھنکا ر پیدا کرنے والی جریب جیب میں ڈال کر کہیں
اپنے گاؤں کا رخ نہ کر لے۔ میں جلدی جلدی مگر اپنے نئے جوتے میں دبتی ہوئی ایڑی کی
وجہ سے لنگڑاتا ہوا بھاگا۔ گو مایا نے جوتی کو سرسوں کا تیل لگا دیا تھا۔ تاہم وہ
نرم مطلق نہ ہوئی تھی۔
شام کو جب میں واپس آیا تو میں نے بھولے کو خوشی
سے دالان سے صحن میں اور صحن سے دالان میں کودتے پھاندتے دیکھا۔ وہ لکڑی کے ایک
ڈنڈے کو گھوڑا بنا کر اسے بھگا رہا تھا اور کہہ رہا تھا :
’’ چل
ماموں جی کے دیس۔۔۔۔رے گھوڑے، ماموں جی کے دیس۔
ماموں جی کے دیس، ہاں ہاں، ماموں جی کے دیس۔
گھوڑے۔۔۔‘‘
جوں ہی میں نے دہلیز میں قدم رکھا۔ بھولے نے اپنا
گانا ختم کر دیا اور بولا۔
’’ بابا۔۔۔آج
ماموں جی آئیں گے نا۔۔؟‘‘
’’ پھر
کیا ہو گا بھولے۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ ماموں
جی اگن بوٹ لائیں گے۔ ماموں جی کلّو ( کتا ) لائیں گے۔ ماموں جی کے سر پر مکّی کے
بھٹوں کا ڈھیر ہو گا نا بابا۔ ہمارے یہاں تو مکّی ہوتی ہی نہیں بابا۔ اور تو اور
ایسی مٹھائی لائیں گے جو آپ نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی۔ ‘‘
میں حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس خوبی سے ’’
خواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی ‘‘ کے الفاظ سات شہزادوں اور سات شہزادیوں والی کہانی
کے بیان میں سے اس نے یاد رکھے تھے۔ ’’ جیتا رہے ‘‘ میں نے دعا دیتے ہوئے کہا ’’
بہت ذہین لڑکا ہو گا اور ہمارے نام کو روشن کرے گا۔‘‘
شام ہوتے ہی بھولا دروازے میں جا بیٹھا تاکہ ماموں
کی شکل دیکھتے ہی اندر کی طرف دوڑے اور پہلے پہل اپنی ماتا جی کو اور پھر مجھے
اپنے ماموں جی کے آنے کی خبر سنائے۔
دیوں کو دیا سلائی دکھائی گئی۔ جوں جوں رات کا
اندھیرا گہرا ہوتا جاتا دیوں کی روشنی زیادہ ہوتی جاتی۔
متفکرانہ لہجے میں مایا نے کہا :
’’ بابا
جی۔ بھیّا ابھی تک نہیں آئے۔‘‘
’’ کسی
کام کی وجہ سے ٹھہر گئے ہوں گے۔‘‘
’’ ممکن
ہے کوئی ضروری کام آ پڑا ہو۔۔۔۔ راکھی کے روپئے ڈاک میں بھیج دیں گے۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’ مگر
راکھی ؟‘‘
’’ ہاں
راکھی کی کہو۔۔انھیں اب تک تو آ جانا چاہیے تھا۔‘‘
میں نے بھولے کو زبردستی دروازے کی دہلیز پر سے
اُٹھایا۔ بھولے نے اپنی ماتا سے بھی زیادہ متفکرانہ لہجے میں کہا :’’ ماتا
جی۔۔ماموں جی کیوں نہیں آئے ؟‘‘
مایا نے بھولے کو گود میں اُٹھاتے ہوئے اور پیار
کرتے ہوئے کہا۔’’ شاید صبح کو آ جائیں۔ تیرے ماموں جی۔ میرے بھولے۔‘‘
پھر بھولے نے اپنے نرم و نازک بازوؤں کو اپنی ماں
کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا :
’’ میرے
ماموں جی تمھارے کیا ہوتے ہیں ؟‘‘
’’ جو
تم ننھی کے ہو۔‘‘
’’ بھائی
؟‘‘
’’ تم
جانو۔۔‘‘
٭٭٭
No comments:
Post a Comment