رہنے کا پاس نہیں ایک بھی تار آخرکار
ہاتھ سے جائے گا سررشتۂ کار آخرکار
لوح تربت پہ مری پہلے یہ لکھیو کہ اسے
یار دشمن ہو گیا جان سے مار آخرکار
مشت خاک اپنی جو پامال ہے یاں اس پہ نہ
جا
سر کو کھینچے گا فلک تک یہ غبار آخرکار
سیر کر کثرت عالم کی مری جان کہ پھر
تن تنہا ہے تو اور کنج مزار آخرکار
چشم وا دیکھ کے اس باغ میں کیجو نرگس
آنکھوں سے جاتی رہے گی یہ بہار آخرکار
ابتدا ہی میں محبت کی ہوئے ہم تو تمام
ہوتا ہو گا یہی کچھ عشق میں یار آخرکار
اول کار محبت تو بہت سہل ہے میرؔ
جی سے جاتا ہے ولے صبر و قرار آخرکار
No comments:
Post a Comment