جیون راگ
اِبنِ مُنیب
صبح،
آٹھ بج کر پچاس منٹ، روشنی۔ ۔ ۔
گھر کے خاموش کمرے میں ایک بڑے صوفے پر حیدر مزے
سے لیٹا ایک دلچسپ ناول پڑھ رہا تھا۔ کالج سے سردیوں کی چھٹیاں تھیں اور مکمل فراغت
ہونے کے باوجود وہ گھر والوں کے ساتھ گھومنے پھرنے نہیں گیا تھا۔ آخر گھر میں آرام
سے ناول پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ ناول کی کہانی مختلف رُخ
اختیار کرنے کے بعد اب تیزی سے عروج کی طرف جا رہی تھی کہ اچانک دروازے کی گھنٹی
زور سے بجی۔ حیدر ناول میں مگن رہا۔ اُسے پتا تھا کہ سرونٹ کوارٹر سے رحیم بابا
دیکھ لیں گے کہ باہر کون آیا ہے۔ مگر جب دو تین مرتبہ گھنٹی بجی اور کسی نے دروازہ
نہ کھولا تو حیدر تلملا کر اُٹھا۔ آخر ضرورت کے وقت یہ لوگ کہاں غائب ہو جاتے ہیں،
اور اِس وقت باہر کسی کو کیا تکلیف ہے؟۔ یہ سوچتے ہوئے وہ بے دلی سے اُٹھا
اور آ کر دروازہ کھول دیا۔ باہر ایک ادھیڑ عمر نوجوان کھڑا تھا۔ ہاتھ
میں کُچھ مزدوری کے اوزار تھے، بال بکھرے بکھرے سے تھے اور چہرے سے پریشانی عیاں
تھی۔ حیدر نے اس کے حلیے پر مزید توجہ دیے بغیر سوالیہ لہجے میں پوچھا "جی؟”۔
اب نوجوان اپنے چہرے پر عاجزی کا تاثر نمایاں کرتے ہوئے بولا، "جناب میں بہت
مشکل میں ہوں”۔ جملہ سنتے ہی حیدر سمجھ گیا کہ اب فقیروں نے نیا روپ دھار لیا ہے
اور وہ ایک لمبی دکھ بھری کہانی سننے کو تیار ہو گیا۔ اُس نے جان چھڑانے والے
انداز میں پوچھا "بھائی کون ہو اور کیا مسئلہ ہے؟”
"وہ
جی، میں ایک غریب مزدور ہوں۔ کئی دنوں سے مجھے مزدوری نہیں ملی”۔
حیدر نوجوان کے الفاظ پر خاص غور نہیں کر رہا تھا
بلکہ اُس کے ذہن میں اُس کے ابو کے الفاظ گھوم رہے تھے۔ ۔ ۔
"بیٹا
یہ لوگ سب جھوٹے اور فراڈ ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ "، "میری بچی سخت بیمار ہے۔ ”
"یہ
سب نئے نئے طریقوں سے پیسے نکلواتے ہیں۔ ۔ ۔ "، "اور اُس کے علاج کے لیے
میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ”
"آخر
ہم اپنی محنت کی کمائی اِن پر کیوں ضائع کریں۔ یہ ہمیں بےوقوف سمجھتے ہیں؟۔ ۔ ۔
"، "خدا کے لیے میری مدد کریں۔ ”
"بیٹا
اِن کی ہوس کی کوئی حد نہیں۔ آج ایک روپیہ دو گے تو کل دو روپے مانگیں گے۔ ۔ ۔ ”
حیدر کو یقین تھا کہ دروازے پر آنے والا ہر فقیر
جھوٹا اور مکار ہوتا ہے۔ اِن میں سے کوئی بھی ضرورت مند نہیں ہوتا۔ پہلے تو وہ کچھ
کہے بغیر دروازہ بند کرنے لگا۔ لیکن پھر اُسے ایک عجیب خیال آیا۔ کیوں نہ آج ابو
کی بات کو آزمایا جائے؟ ا اور ُس نے جلدی سے پوچھا، "کتنے پیسے دُوں؟”۔ ایک
لمحے کے لئے نوجوان کے چہرے پر حیرانی کے آثار نمودار ہوئے اور پھر اُس کی آنکھیں
چمک اُٹھیں۔ حیدر کا خیال تھا کہ یہ فقیر بے وقوف شکا ر کو دیکھ کرسو دو سو روپے
مانگ لے گا۔
"صاحب!
خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔ اگر دو تین ہزار روپے مل جائیں تو میری بچی کے لئے چند
دنوں کی دوائی کا انتظام ہو جائے گا”۔
جواب سن کر حیدر آپے سے باہر ہو گیا۔ ابو واقعی
ٹھیک کہتے ہیں۔ اِن لوگوں کی ہوس کی کوئی حد نہیں۔ اور وہ جیسے پھٹ پڑا، "تم
لوگ ہمیں بے وقوف سمجھتے ہو؟ شرم نہیں آتی، تین ہزار روپے مانگتے ہوئے؟میں نے
تمہارا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے؟ پیسے درختوں پر نہیں اگتے۔ محنت کرنی پڑتی ہے”۔ یہ کہہ
کر اُس نے جیب سے چند سکے نکال کر نوجوان کو تھما ئے اور حقارت سے بولا، "یہ
لو اور خدا کے لئے معاف کرو”۔ نوجوان اپنی ہتھیلی پر پڑے سِکوں کو شرمندگی سے تکنے
لگا، جیسے دل ہی دل میں اُنہیں ملامت کر رہا ہو۔ اُدھر حیدر اپنے آپ سے خوش تھا کہ
آج اُس نے اِن لوگوں کا اصلی روپ دیکھ لیا ہے۔ اُس نے دروازہ بند کیا اور واپس
کمرے میں آ کر ناول پڑھنے لگا۔ کہانی ایک مرتبہ پھر دلچسپ موڑ پر تھی کہ دروازے کی
گھنٹی دوبارہ بجی۔ اب کوئی پہلے جیسا جاہل ہوا تو اُس کی خیر نہیں۔ حیدر ناول ہاتھ
میں لئے دروازے پر پہنچا اور باہر اپنے دوست احمد کو کھڑے پایا۔
"کہاں
ہوتے ہو یار، چھٹیاں شروع ہونے کے بعد نظر ہی نہیں آئے”۔
احمد مسکرایا اور بولا، "بھائی اب تو آ گیا
ہوں نا۔ یہ بتاو کہ آج شام آ رہے ہو یا نہیں؟”۔
"کہاں؟”
حیدر نے حیرانی سے پوچھا۔
"یا
ر کس دُنیا میں رہتے ہو؟ آج رات کالج میں میوزیکل شَو ہے۔ اور تمہارا فیورٹ بینڈ
جیوَن راگ بھی آ رہا ہے”۔
"یار
تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ ضرور چلیں گے۔ ٹکٹ کتنے کا ہے؟”
"کالج
کے سٹوڈنٹس کے لئے بہت ہی کم رکھا ہے۔ تمہیں یقین نہیں آئے گا۔ صرف تین ہزار
روپے”۔
"صرف
تین ہزار؟ کالج والے چھا گئے ہیں”۔
شام، پانچ بج کر پندرہ منٹ، اُفق پر ڈوبتے سورج کی
سُرخی۔ ۔ ۔
احمد اور کُچھ اور دوست جیپ میں آئے اور حیدر کو
اپنے ساتھ لے کر کالج کی طرف روانہ ہوئے۔ حیدر دوستوں کے ساتھ خوب گپ شپ لگاتا
رہا۔ مین روڈ پر چڑھنے سے پہلے جیپ کچی آبادی سے گزری۔ اِس آبادی کی بھی ایک عجیب
کہانی تھی۔ یہاں مختلف قسم کے لوگوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ فقیر، بھنگی، غریب،
مزدور، مہاجر۔ کچھ نے جھونپڑیاں بنا رکھی تھیں اور کچھ نے گارے سے مکان نما مسکن
تعمیر کر لئے تھے۔ ڈویلوپمنٹ اتھارٹی کئی مرتبہ انہیں یہ جگہ چھوڑنے کا حکم دے چکی
تھی۔ کیونکہ اِن لوگوں نے سرکاری زمین پر ‘ناجائز قبضہ’ کر رکھا تھا۔ اِنہی کچے
مکانوں کے بیچ و بیچ ایک بے نام و نشان مکان میں ایک ننھی سی بچی
چارپائی پر لیٹی سخت سردی اور بخار سے کانپ رہی تھی۔ اُس کے سرہانے اُس
کی پریشان ماں بیٹھی تھی۔ گھر میں چند برتنوں، ایک گھڑے اور ایک چولہے
کے علاوہ مزدوری کے چند اوزار تھے جو ایک کونے میں بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے۔
نوجوان اِس گھر میں داخل ہوا۔ جیب سے چند سکے نکال کر عورت کے ہاتھ پر رکھے اور
بولا، "خدا کو جو منظور ہو گا وہی ہوگا۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ میں کسی کے
آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا۔ مجھے دوبارہ مجبور نہ کرنا”۔ اُس نے بچی کے ماتھے پر
ہاتھ رکھا۔ ننھے سے جسم کو چاٹتے بخار کی گرمی اُس کی روح تک جا پہنچی۔ آخر خدا کو
کیا منظور تھا؟۔ وہ کچھ دیر بچی پر نظریں جمائے کھڑا رہا اور پھر انتہائی بے بسی
اور اضطراب کے عالم میں گھر سے باہر چلا گیا۔
رات، دس بج کر بائیس منٹ، تاریکی۔ ۔ ۔
جیوَن راگ کا کانسرٹ زور و شور سے جاری تھا اور ہر
گزرتے لمحے کے ساتھ بچی کا بخار تیز اور زندگی کا راگ مدھم پڑتا جا رہا تھا۔ رات
کی ظلمت انتہائے شدت کو پہنچی۔ کانسرٹ کامیابی سے ختم ہوا اور اُس کے تھوڑی دیر
بعد بچی کا جسم بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔ ننھی جان کا ساز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو
گیا۔ نہ کسی نے دیکھا، نہ سُنا، نہ پرواہ کی۔ خوش و خرم دوستوں سے بھری جیپ
دھول اڑاتی کچی آبادی کے پاس پہنچی اور ان خاک نشینوں پر دھول اُڑاتی ہوئی تیزی سے
گزر گئی۔ آسمان سے کم جاری ہوا۔ ۔ ۔ فرشتے روتے ہوئے آئے اور معصوم روح کو لپیٹ کر
اُس صاحبِ عرش کے پاس لے گئے جس کی رحمت پر پلنے والے امیر آسائش اور اینٹرٹینمنٹ
کو اپنا حق اور زندگی کا اصل مقصد سمجھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment