آیا جو اپنے
گھر سے وہ شوخ پان کھا کر
کی بات ان نے
کوئی سو کیا چبا چبا کر
شاید کہ منھ
پھرا ہے بندوں سے کچھ خدا کا
نکلے ہے کام
اپنا کوئی خدا خدا کر
کان اس طرف نہ
رکھے اس حرف ناشنو نے
کہتے رہے بہت
ہم اس کو سنا سنا کر
کہتے تھے ہم
کسو کو دیکھا کرو نہ اتنا
دل خوں کیا نہ
اپنا آنکھیں لڑا لڑا کر
آگے ہی مر رہے
ہیں ہم عشق میں بتاں کے
تلوار کھینچتے
ہو ہم کو دکھا دکھا کر
وہ بے وفا نہ
آیا بالیں پہ وقت رفتن
سو بار ہم نے
دیکھا سر کو اٹھا اٹھا کر
جلتے تھے ہولے
ہولے ہم یوں تو عاشقی میں
پر ان نے جی ہی
مارا آخر جلا جلا کر
سوتے نہ لگ چل
اس سے اے باد تو نے ظالم
بہتیروں کو
سلایا اس کو جگا جگا کر
مدت ہوئی ہمیں
ہے واں سے جواب مطلق
دفتر کیے
روانہ لکھ لکھ لکھا لکھا کر
کیا دور میرؔ
منزل مقصود کی ہے اپنے
اب تھک گئے ہیں
اودھر قاصد چلا چلا کر
No comments:
Post a Comment