گدھا سا لدا پھرتا ہے شیخ ہر سو
کہ جبہ ہے یک بار و عمامہ سر بار
مرے نخل ماتم پہ ہے سنگ باراں
نہایت کو لایا عجب یہ شجر بار
ہمیں بار اس در پہ کثرت سے کیا ہو
لگا ہی رہے ہے سدا واں تو دربار
یہ آنکھیں گئیں ایسی ہو کر در افشاں
کہ دیکھے سے آیا تر ابر گہر بار
کب اس عمر میں آدمی شیخ ہو گا
کتابیں رکھیں ساتھ گو ایک خر بار
جہاں میرؔ رہنے کی جاگہ نہیں ہے
چلا چاہیے یاں سے اسباب کر بار
No comments:
Post a Comment