راجندر سنگھ بیدی
مادھو کی بیوی کو لوگ کلکارنی پکارتے تھے۔ اگر میں
کچھ زیادہ نہیں بھولتا تو یہ نام کُلتارنی سے ہی بگڑ کر بنا تھا۔ مطلب کُل کی
(ڈوبتی ہوئی) نیّا کو پار لگانے والی۔ یہ پیارا دُلارا نام نہ صرف کُل کو لاج
لگانے والی سے اختلاف ظاہر کرتا ہے،بلکہ اس کا کچھ اور بھی گہرا مطلب ہے، جسے
مادھو کے سوا کوئی کم ہی جان سکتا ہے۔ عین اس طرح جیسے موسیقی سے فضا میں تموّج کے
علاوہ ایک ایسی وجدانی کیفیت پیدا ہوتی ہے، جسے کچھ دل ہی سمجھ سکتا ہے اور پھر
چوٹ کھایا ہوا دل! —
سچ تو یہ ہے کہ یہ نام ہوتے ہی کچھ گورکھ دھندا سے
ہیں۔ معلوم نہیں لوگ کیوں بعض وقت جنم کے اندھے کو نین سُکھ اور نپٹ گنوارو کو
وِدیا ساگر کہہ دیتے ہیں۔
کئی دفعہ کوئی بھولا بھالا بچّہ اچانک اپنی ماں سے
سوال کر دیتا ہے کہ میں— اس دنیا میں کہاں سے آیا، تو ماں گھبرا کر جواب دیتی ہے۔
بیٹا! نرالی پورنما کے روز اِندر بھگوان نے بہت سا مینہ برسایا۔ اس وقت بہت سے
بچّے آکاش سے گرے تھے، اُن میں سے ایک تم تھے۔مجھے بہت من موہنے لگے اور میں نے
تمھیں صحن میں سے اُٹھا لیا۔ یا کہتی ہے تمھارا باپ ایک سو بیالیس گھنڈیوں والا
جال لے کر رام تلائی یا شاہ بلور کے جوہڑ میں مچھلیاں پکڑنے گیا۔ وہاں نہ مچھلی
تھی نہ کچھوا، صرف جونکیں تھیں ۔ ایک ننھا سا مینڈک عمرو جولاہے کے گھر کے سامنے
روئی کے ایک گالے پر آرام سے بیٹھا ہوا برسات کی خوشی میں گا رہا تھا۔ وہ تمھیں
تھے۔ تمھارا باپ تمھیں اُٹھا لایا اور ہم نے پال لیا۔ کچھ ایسی ہی بات ہم نے مادھو
کے متعلق بھی سُنی تھی کہ وہ چکنی مٹی کے ایک ڈھیلے سے بنا تھا— ادھری ندیا میں
طغیانی آنے پر مٹی کے ایک ڈھیلے نے رام تلائی کے مندر میں ٹھاکرجی کے چرنوں کو
چھُوا۔ مٹی پانی اور ہوا تو پہلے ہی موجود تھے۔ آکاش اور آگ ملی تو بچّہ بن گیا
اور یہ سب کچھ ٹھاکرجی کی دَیا سے ہوا — گلاب گڑھ کے تمام پرائمری پاس یا مڈل فیل
آدمی اس بات کو ماننے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ بھلا وہ اس بات کا جواب تو دیں کہ
سیتا جی کس طرح کھیت میں دبائے ہوئے ایک گھڑے کو ہل کی ٹھوکر لگ جانے سے پیدا ہو
گئیں؟ کرن جی کسی طرح کنتی جی کے کانوں کی میل سے بن گئے؟ رام چندر جی کے دوسرے
بیٹے کُش کو کُشا یعنی گھاس سے کیسے بنا لیا گیا؟
خواہ مادھو ،مٹی کے ایک ڈھیلے سے بنا تھا، پھر بھی
اُسے مٹی کا مادھو نہیں کہا جا سکتا تھا کیوں کر وہ ایک بہت سمجھ دار آدمی تھا۔
اگر گھر کے آدمی اُسے مٹی کا مادھو سمجھتے تھے تو سمجھا کرتے۔ گھر کا جوگی جوگڑا…
گھر والوں کو یہی شکایت تھی نا کہ مادھو گھر کا کام کاج کرنے کی بجائے دوسروں کا
کام کر کے زیادہ خوش ہوتا تھا، اور حقیقت میں اس بات سے مادھو کی تعریف ہی کا پہلو
نکلتا ہے۔
ہاں! کچھ مادھو کی صورت کے متعلق ۔ وہ قد کا
گٹھیلا تھا اور جسم کا اکہرا ۔ عمر یہی کوئی چالیس پنتالیس کے لگ بھگ ہو گی۔ چہرے
پر چیچک کے داغ، گورے رنگ سے گھی کھچڑی ہو رہے تھے۔ کلکارنی کی آنکھیں تو رسیلی
تھیں ہی، مگر مادھو کی زیادہ دور تک مار کرتی تھیں۔ قدرے باہر کو اُبھری ہوئی تھیں
… اتنی اُبھری ہوئی کہ سوتے میں درِ فتنہ کی طرح ہمیشہ نیم باز رہتیں۔گلاب گڑھ کے
پرائمری اسکول کے منشی بھائی گریب داس، جو کبھی کبھی شہر میں جا کر ایک آدھ ردّی
سی فلم کے نظارے سے مستفیض ہو آیا کرتے تھے، مادھو کی آنکھوں کو ’’پیا ملن کی آس‘‘
مار کہ آنکھیں کہا کرتے تھے اور اُن کے ہونہار شاگرد اپنے اُستاد کے ارشاد پر
تضمین کرتے، یا بالکل تجدید کرتے ہوئے مادھو کو چمگادڑ نینا، کہتے تھے۔
کلکارنی،زندگی کے روشن پہلو اور مادھو ،تاریک پہلو
کو دیکھنے کا عادی تھا۔ دونوں میں ایک دلچسپ مگر خطرناک فطری تضاد تھا۔ اس وجہ سے
اکثر اُن کی آپس میں ایک آدھ جھپٹ ہو جایا کرتی۔ مادھو کی قنوطیت اس درجہ نمایاں
تھی کہ جو کوئی اُسے بازار میں ملتا تو بجائے جے رام جی کی یا صاحب سلامت کے کہتا۔
’’کہو
بھئی مادھو — من کی من میں رہی؟‘‘
فنا کا نمائندہ اور قنوطیت کا علمبردار فی الفور
ایک گہرا، ٹھنڈا سانس لیتا اور کہتا۔
’’ہاں—
بھائی — من کی من میں رہی!‘‘
اور اس قسم کا طریقۂ تخاطب کلکارنی کو سر سے پانو
تک جلا دیتا۔ کیا کرتی وہ؟ گلاب گڑھ کے لوگ تو اُس کی
شادی سے پہلے ہی مادھو کو اس کی یاس پسندی کی وجہ سے یوں خطاب کرنے کے عادی تھے
۔اُنھیں روکنا اُس پودے کو موڑنے کے برابر تھا، جو ایک خاصا تن آور درخت بن چکا
ہو۔ بہر حال وہ بہت ہی جھلاّتی اور جو کوئی مادھو کو یوں خطاب کرتا، اگلے روز اُس
کی بیوی ، ماں یا بہن سے کلکارنی کی لڑائی ہوتی اور کلکارنی جواب طلب کرتی۔ ’’آخر
اس من کی من میں رہی کا مطلب کیا ؟‘‘
مادھو، کلکارنی کے اس احتجاج پر بہت خوش ہوتا۔
دفلی بجاتا اور کہتا۔
’’میری
زندگی کلکارنی کو کتنی پیاری ہے۔ کسی کو من کی من میں رہی کہنے ہی نہیں دیتی،
حالاں کہ نہ اُسے ہنسلی بنوا کر دی ہے اور نہ پازیب… ارے تین مہینے سے تو پیٹ رہی
ہے۔‘‘
ایک دن میں نے مادھو کو یک بیک فلسفی بنتے دیکھا۔
منشی گریب داس کے سامنے وہ عورت کی محبت و مروّت کو سراہ رہا تھا… کنگرو کی قلانچ
سے زیادہ عجیب، اُجڈ اور دیہاتی انداز میں … اور کون نہیں بھانپ سکتا تھا کہ اس کا
اشارہ کلکارنی کی طرف ہے۔ اُس کے لفظ تھے۔
’’بھائی
گریب داس — اگر دنیا عورت کی بجائے آدمی کے پیٹ سے پیدا ہونے لگے تو دَیا ، پریم
اور نرمی کا نام ہی نہ رہے۔ عورت آدمی کو اپنی کوکھ سے جنم دے کر اس کے اکھڑپن کو
دور کر دیتی ہے۔‘‘
کتنا حقیقت سے لبریز تھا مادھو کا عملی فلسفہ۔
ایسی لاکھوں کی ایک سن کر بھی جو مادھو کو مٹی کا مادھو کہے، کیا وہ خود مٹی کا
مادھو نہیں ہے؟
بُرج والے کنوئیں کی بیڑ، جھرکل، ڈھول یا لٹھ
ٹوٹتی ٹوٹ جائے گی، مگر مادھو اُس کی طرف متوجہ نہ ہو گا۔ بیلوں کی جوڑی سے زیادہ
سے زیادہ کام لے کر اور کم سے کم چارہ ڈال کر اس کے مزارع دو دو سو کے بیلوں کی
جوگ کو ایسی ناکارہ بنا دیں گے کہ گلّو شاہ کے بھرے میلہ میں اُن کی قیمت پچاس
پچاس روپئے سے کوڑی نہ بڑھے گی۔ گھر میں کسی خوشی یا غم کے موقع پر مادھو سے کسی
قسم کی توقع بے کار ہو گی، مگر وہ دوسروں کی مدد کے لیے کتنی جلدی لنگر لنگوٹا کسے
گا … گلاب گڑھ میں ایک بیوہ امبو رہتی تھی۔ اُس کے خاوند رُلیا کو مرے سات سال کے
قریب ہوئے تھے۔ اُسی روز سے بے چاری اپنی عزّت کو سنبھالے بیٹھی تھی۔ اگر اُسے
سماج کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو بے چاری کبھی کی تباہ و برباد ہو چکی
ہوتی۔مادھو کو اُس کی مدد کرتا دیکھ کر لوگ کئی طرح کے بہتان لگاتے۔ طرح طرح کی
باتیں بنا کر معصوم مادھو اور بدنصیب بیوہ کو بدنام کرتے۔ سماج میں اتنی دَیا کہاں
کہ جس چیز کو وہ خود دینے سے ہچکچاتی ہے،اپنے کسی فرد کو دیتا دیکھے۔ امبو کی مدد
پر لوگوں کی مخالفت نے دونوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی اور اس مخالفت میں کلکارنی
سب کی پیشوائی کرتی تھی۔
اگر یہ سچ ہے کہ کسی غیر مرد کا یوں بیوہ کی مدد
کرنا پاپ ہے، تو یہ بھی سچ ہے کہ سماج کے دائرہ میں رکھ کر ایسی شکستہ حال بیوہ کے
رہے سہے گوشت پوست کو نوچ نوچ کر کھانا کوئی پاپ نہیں!
ایک دن مادھو کہیں باہر سے آیا۔ وہ چہرے سے کسی
گہری سوچ میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا تھا۔
’’مجھے
بیس روپئے دو گی — کارنی؟ مادھو نے گاڑھے کی چادر کو شانے پر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’کیا
کروگ ے اتنے روپوں کو؟‘‘
مادھو کو اسی سوال کی توقع تھی۔ کارنی کو اس بات
کا وہم رہتا تھا کہ مادھو اپنی سخاوت پسند طبیعت کی وجہ سے جا و بے جا روپیہ خرچ
کرتا رہتا ہے اور اس کا عقیدہ تھا کہ جو آپ کھایا سو کھایا ، جو کھلایا سو گنوایا۔
وہ روپیہ جمع بھی کرتی تو اس لیے کہ زندگی میں کبھی کام آئے گا۔ گویا وہ ہمیشہ
جیتی رہے گی … اتنی لمبی آس … اور شرادھ میں گئے گزروں کے نام پر وہ بہت سا روپیہ
دان بھی کرتی، مگر اِس قسم کے دان سے مادھو متفق نہیں تھا۔
’’کیا
کرو گے اِن روپوں کو؟‘‘ اس سوال کا جواب مادھو نے پہلے ہی سے اپنے ذہن میں تراش
رکھا تھا۔ فوراً بولا۔
’’چند
دن ہی ہوئے تو خود ہی ہنسلی اور پازیب کے لیے کہہ رہی تھی … میں باہر جا رہا ہوں۔
بنوا لاؤں گا۔‘‘
کلکارنی اچھل پڑی۔ بھلا ہنسلی اور پازیب کے لیے
کون بیس روپئے نہ دے گا۔ وہ فوراً گندم کے ڈھیر میں چھپائی ہوئی بانسلی اُٹھا لائی
اور بیس کے پچیس روپئے مادھو کی کمر میں بندھوا کر بولی۔
’’سنو،
کل سکرانت ہے … مکرسکرانت، تمھارے بہو بیٹے کا پہلا تیوہار ہو گا۔ ہو سکے تو سُنار
کے پاس ہی بیٹھ کر ہنسلی ڈھلوا لینا ، نہیں تو اس کے عوض کوئی اور ہی لے آنا… پل
کی پل پہن لوں گی۔ جلدی آنا، میں نے تیوہار منانے کا بندو بست کر لیا ہے ۔‘‘
مادھو نے کمر میں بندھی ہوئی بانسلی پر ایک چُست
سی صدری ڈالی اور چل دیا۔
سکرانت بھی آ گئی۔ اس دن سورج دھن راسی سے نِکل کر
مکر راسی میں داخل ہوتا ہے۔ اس لیے اُسے مکرسکرانت کہتے ہیں۔سکرانت کی دیوی نے
سوائے مادھو کے پاپ کے گلاب گڑھ تو کیا، تمام دنیا میں سے پاپ کی بیخ کنی کے لیے
اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو پھیلا اور ترشول تان کر دنیا کا سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔
سجی دھجی عورتیں تِل، گڑ، بیر ، امرود اور گنڈیریاں بانٹ رہی تھیں۔ پریم کے اس
تبادلے کو’’ اُوٹی بھرن‘‘ کہتے ہیں۔ اوٹی بھرن کرتے ہوئے وہ غیر ارادی طور پر
ہماری زندگی میں ایک روح پھونک دینے والا پیغام دے رہی تھیں۔ دراز سے دراز اور
سیاہ سے سیاہ زبان رکھنے والی عورت بھی اپنے چہرے کو ایک عارضی مسکراہٹ سے مزین
کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ’’میٹھا میٹھا کھاؤ اور میٹھا میٹھا بولو۔‘‘
چونکہ مادھو کے بہو بیٹے کا پہلا تیوہار تھا،
دونوں کو صحن کے وسط میں ایک دھوتی اور ایک لنگوٹی بندھوا کر بٹھا دیا گیا۔ جسم پر
تیل اور دہی ملا گیا۔ اس کے بعد بہو کی بہن نے بہو کو اور دولھا کی بہن نے دولھا
کو سہیلے گاتے ہوئے نہلایا۔ کونے میں بیٹھے ہوئے آدمیوں نے چند پرانے سے ناقوس اور
نفیریاں بجائیں۔ دف پر چوٹ پڑی۔ کلکارنی نے سیندور اور مصری اور ناریل بانٹا۔ اُس
وقت مادھو کا بدھائی لینے کے لیے وہاں ہونا لازمی تھا۔ مگر وہ کہیں دکھائی نہ دیتا
تھا۔ کلکارنی کو تو اپنی ہنسلی اور پازیب کی پڑی تھی۔ وہ رہ رہ کر مادھو کو کوستی
اور اپنے گلے اور ایڑیوں کو ساڑھی کے پلّوؤں سے چھپاتی … کلکارنی جان گئی کہ سنار
نے ہنسلی بناتے ہوئے دیر لگا دی ہو گی۔
کبھی کبھی اُسے خیال آتا، شاید مادھو میری
زیادتیوں کی وجہ سے مجھ سے روٹھ گیا ہو کیوںکہ وہ جانتا تھا کہ مکرسکرانت کے دن
رُوٹھے منائے جاتے ہیں۔ مگر سیدھا سادا مادھو اتنے چھل بل کہاں جان سکتا تھا …
سُنار کے پاس آدمی دوڑایا گیا تو پتہ چلا کہ مادھو وہاں پہنچا ہی نہیں۔
مادھو کی ڈھنڈیا پٹی۔ کوئی بچہ تھوڑے ہی تھا کہ
راستہ بھول جاتا۔ کلکارنی کی تشویش بڑھی۔ اُس نے چاروں طرف آدمی بھیجے۔ اِس میں شک
نہیں کہ مادھو نے گھر، کلی طور پر کلکارنی سی ہوشیار عورت کو سونپ رکھا تھا۔ مگر
وہ اتنا بے مہر نہیں تھا کہ اپنے بہو بیٹے کے پہلے تیوہار کے شگن منانے سے احتراز
کرتا۔
شام تک مادھو پہنچا نہ کلکارنی کی ہنسلی اور
پازیب۔ کلکارنی کا غصہ اور فکر دونوں سُرعت سے بڑھنے لگے۔
جب شام کو دِیوں کو دیاسلائی دکھائی گئی تو عورتیں
سب کی سب ایک ایک کر کے رخصت ہو گئیں۔ پہلے شور و غوغا سے آشنا کان برابر کی
خاموشی کو پاکر شائیں شائیں کرنے لگے۔ اس وقت کلکارنی کے کانوں میں ایک دھیمی سی
آواز آئی۔ اس کا پڑوسی بنجارہ کہہ رہا تھا …
’’کہو
بھائی … مادھو من کی من میں رہی؟‘‘
جواب میں ایک مردہ سی آواز آئی۔ ’’ہاں بھائی! من کی
من میں رہی!‘‘
اب تک کلکارنی کا فکر اُس کے غصّہ پر غالب تھا،
لیکن مادھو کو بے آنچ پہنچتے اور پھر برس کے برس، دن ’’من کی من میں ر ہی‘‘ کے
الفاظ کہتے سُن کر اس کا غصّہ فکر پر غالب آ گیا۔ وہ سر سے پانو تک راکھ ہی تو ہو
گئی۔ بجلی کی مانند لپکی۔ صحن میں آئی۔ ڈیوڑھی میں پہنچ کر دروازے کی زنجیر اندر
سے چڑھا دی۔ ننگی ایڑیوں کو دیکھ کر اس کا غصّہ اور بھی چمک اُٹھا۔ اس اثنا میں
مادھو دروازے کے قریب پہنچ چکا تھا اور سردی سے کانپ رہا تھا۔ پوہ ماگھ کی سردی
جگر تک پہنچتی ہے۔ کانپتے ہوئے مادھو نے کلکارنی سے دروازہ کھولنے کے لیے منّت کی۔
اندر سے آواز آئی۔ ’’جاؤ … باہر ہی رہو۔ اب تمھاری
ضرورت ہی کیا ہے؟ جدھر منھ اُٹھائے ہو، اُدھر چلے جاؤ … اُتر ہے تو اُتر کو، دکھن
ہے تو دکھن کو … گھر کیا ہے، ہنسی کھیل بنا رکھا ہے۔ بڑے سونٹھ کی جڑ تلاش کرنے
گئے تھے … اتنا بھی نہیں سوجھا، گھر میں خوشی ہے … پرمیشر نے چاہا تو ، یہ من کی
من میں رہے گی … واویلا کیوں کرتے ہو‘‘
مادھو کچھ دیر کے لیے ٹھٹک گیا۔ بھر بولا ۔
’’دروازہ تو کھولو … کارنی، دیکھو سردی کے مارے اکڑ رہا ہوں۔ تمھاری ہنسلی اور
پازیب ہی تو بنوانے گیا تھا۔‘‘
’’میں
جانتی ہوں سنارکے پاس تو تمھاری پرچھائیں تک نہیں پھٹکی … سچ سچ کہو ،کیا تم اُس
میری سوت کے پاس نہیں گئے تھے؟‘‘
’’کون
سوت؟‘‘
’’امبو
… اور میری سوت کون ہو گی؟‘‘
حقیقت میں مادھو اسی کے پاس گیا تھا۔ کلکارنی کے
سامنے اس بات سے انکار کرنے کی جرأت نہ پڑی۔ اور وہ انکار کرتا بھی کیوں؟ … بولا …
’’ٹھیک
ہے کارنی … امبو بہن نے کہلا بھیجا تھا۔ ساہوکار نے ایک ایک روپئے کے دو اور دو دو
کے تین تین بنا لیے ہیں… اور میں نے بیس روپئے تم سے دراصل اسی لیے مانگے تھے۔
تمھاری ہنسلی میں اپنے پیسوں سے بنوا دوں گا ، جو ڈاک گھر میں جمع ہیں۔ فکر نہ
کرو۔ دروازہ تو کھولو۔‘‘
مادھو کو کوئی جواب نہ ملا۔ کلکارنی کے بڑبڑانے کی
آواز آئی ۔ وہ کہہ رہی تھی۔
’’برس
دن کے بعد ایک آدھ دن خوشی کا آتا ہے … اُس میں بھی دُکھ ہی ملتا ہے … بہو بیٹے کا
تیوہار روز روز آئے گا نا … سہیلے روز روز گائے جائیں گے … ایسے موقع پر خوشی کو
دبا کر کون دق مول لے … یہ ہیں کہ … ‘‘
مادھو نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا۔
’’کسی
بہن بھائی کو دکھی دیکھ کر مجھ سے تو مدن اور رتی کے سہیلے نہ گائے جاتے ہیں، نہ
گائے جائیں گے!‘‘
کلکارنی نے دروازہ نہ کھولا …
مگر اُسے نیند کہاں آتی تھی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے
بعد اُس نے آہستہ سے کواڑ کھولے تو دیکھا، اس کا مجازی خدا دروازہ کی چوکھٹ پر سر
ٹیک کر اونگھ گیا تھا۔ اس کے گھٹنے چھاتی سے لگ رہے تھے۔ کلکارنی کی آنکھوں سے ٹپ
ٹپ آنسو گرنے لگے۔ شرمندگی کے ایک گہرے احساس سے اُس نے مادھو کا شانہ ہلایا۔ بولی
۔
’’میں
کہتی ہوں… ‘‘
’’ … ‘‘
میں کہتی ہوں … چلو گے؟ اندر …‘‘
مادھو نے آنکھیں ملتے ہوئے سر اُٹھایا۔ اور
بولا۔’’ہاں … چلوں گا!‘‘
مادھو اندھیرے میں اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔
سردی میں ہاتھ سُن ہو رہے تھے۔ یوں گمان ہوتا تھا ، جیسے وہ اُس کے اپنے نہیں ہیں۔
کلکارنی نے جلدی سے انگیٹھی جلائی، مادھو کے اکڑے ہوئے جسم کو گرم کیا اور اُس کے
پانو پر سر رکھ کر دیر تک روتی رہی۔ — اور یہ رونا دھونا کاہے کا … مادھو کو تو
ذرا بھی غصّہ نہیں تھا!
نصف شب کے قریب مادھو کو چھاتی میں کچھ درد محسوس
ہوا۔ باقی رات وہ چھاتی کو دباتا اور کراہتا رہا۔ کلکارنی نے گھی گرم کر کے جائفل
کوٹ کر مالش بھی کی۔ مگر مادھو کا دُکھ بڑھتا گیا۔
صبح ہوتے ہوتے اُس کی تکلیف بہت ہی بڑھ گئی۔ دور
نزدیک سے سیانے لائے گئے۔ مادھو کو نمونیا ہو گیا تھا۔ اُس کے دونوں پھیپھڑے شل ہو
گئے تھے۔ سانس مشکل سے آتی تھی۔ کارنی کہتی تھی کہ نمونیا وغیرہ کچھ نہیں۔ امبو
بہت گنڈے تعویذ جانتی ہے۔ اس نے کچھ نہ کچھ دے دیا ہو گا۔ اگر وہ گزشتہ شب کے
واقعہ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اپنا قصور مان لیتی تو وہ دیوی سے کم کیا ہوتی۔ مگر
وہ تو محض ایک عورت تھی۔
دوپہر کے قریب کچھ افاقہ ہوا۔ اُس نے کارنی کو
بلایا اور بولا۔
’’میں
نے سُنا ہے … کہ تم نے امبو کو اندر تک نہ آنے دیا۔ صبح جب وہ میری خبر لینے کے
لیے آئی تھی … کیوں؟‘‘
’’نہ
جانے کیوں۔‘‘
’’تم
جانتی ہو میں امبو بہن سے بہت پیار کرتا ہوں …‘‘
’’ہاں
… مگر میں جگ ہنسائی نہیں چاہتی۔ تمام دنیا میرے پیچھے کتّے لگائے گی … جانتے بھی
ہو دنیا کو …؟‘‘
’’جانے
دو دنیا کو‘‘ مادھو نے بائیں پھیپھڑے میں درد کی ایک ٹیس محسوس کرتے ہوئے کہا
۔’’اب جب کہ میں مر رہا ہوں۔ مجھے دنیا کی پروا ہی کیا ہے … میرے پاس تو اتنے بول
بھی نہیں کہ میں امبو بہن اور اس کے ساتھ اپنے رشتے کی پاکیزگی کا دعوا کر سکوں…
ہائے … تم اپنے مرتے ہوئے پتی کو بچن دو کہ تم اپنی زندگی میں اُس غریب کی ایسے ہی
خبرگیری کرتی رہو گی… اُسے اپنے پاس بلا لو گی … کہو تو … ۔‘‘
’’میری
خبرگیری کون کرے گا؟ … تمھارے دشمنوں کو … ‘‘ کلکارنی زار و قطار روتے ہوئے بولی۔
مادھو نے آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھائی۔
مادھو دنیا کو چھوڑ رہا تھا، مگر کارنی دُنیا سے
چمٹی ہوئی تھی۔ اُس نے تو مادھو کو خالی تسکین دینے کے لیے بھی اثبات میں سر نہ
ہلایا۔ وہ بالکل اُس آدمی کی طرح تڑپتا رہا، جس کے دل میں بہت سی خواہشیں ہوں، مگر
موت اُس کا گلا آ دبائے … کچھ دیر بعد مادھو کا درد ہمیشہ کے لیے مٹ گیا۔
مرنے کے بعد مرحوم کی جو آخری باتیں نمایاں طور پر
یاد آتی ہیں، اُن میں سے ایک یہ تھی۔ ’’کسی بھائی بہن کو دُکھی دیکھ کر مجھ سے مدن
اور رتی کے سہیلے نہ گائے جاتے ہیں، نہ گائے جائیں گے!‘‘
۔۔۔
ہمارے ملک میں تیوہار ہی تیوہار تو ہیں اور ہئی
کیا؟ کاش یہاں کوئی تیوہار نہ ہوتا۔ بیوائیں اور یتیم تو رونے سے بچ جاتے۔ پھر ایک
بار مکرسکرانت آ گئی۔ پھر سورج دھن راسی سے مکر راسی میں داخل ہوا۔ سکرانت کی دیوی
نے سماج کے کلنک یعنی امبو کے پاپ کے سوا تمام دنیا میں سے پاپ کی بیخ کنی کے لیے
اپنی بڑی بڑی ڈراؤنی آنکھوں کو پھیلا اور ترشول تان کر دنیا کا سفر کرنا شروع کر
دیا تھا۔ اوٹی بھرن کرتے ہوئے دراز سے دراز اور سیاہ سے سیاہ زبان رکھنے والی عورت
بھی اپنے چہرے کو ایک عارضی مسکراہٹ سے مزین کرتی ہوئی کہہ رہی تھی۔ ’’میٹھا میٹھا
کھاؤ اور میٹھا میٹھا بولو۔‘‘
پھر موقع آیا کہ برسوں کے روٹھے ہوئے منائے جائیں۔
امبو سے تو گاؤں کا ہر ایک بچّہ بوڑھا روٹھ گیا تھا۔ وہ کس کس کو مناتی۔ ایک رُلیا
اور مادھو کے رُوٹھ جانے سے کائنات کا ذرّہ ذرّہ اُس سے روٹھ گیا تھا۔ ہائے! رُلیا
اور مادھو ایسے روٹھنے والے کوئی ماننے کے لیے تھوڑے ہی روٹھے تھے!
امبو کے گھر میں کانسی کے چمکتے ہوئے برتن بالکل
سونے کے بنے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ جھونپڑی میں لیپ پوت یوں کیا گیا، جیسے امبو کے
گھر میں کوئی آنے والا ہو۔ کبھی کبھی وہ آنکھ اُٹھا کر باہر دیکھ لیتی۔ کیا عجب جو
کہیں گھومتا پھرتا رُلیا ہی آ جائے۔ نہیں تو مادھو کی صورت ہی دکھائی دے جائے۔
مادھو کے بیٹے میں امبو کو مادھو بھائی کی ہی روح
نظر آتی تھی۔ اگرچہ وہ جانتی تھی کہ گانو کے لوگ عام طور پر اور کلکارنی اور اس کی
بہو اور بیٹا خاص طور پر اُس کی شکل دیکھنے سے بیزار ہیں۔ کیوں کہ اُسی نے تو
مادھو کو کوئی جنتر منتر دے دیا تھا۔ پھر بھی اُس نے ایک کانسی کی تھالی میں کچھ
گاجریں، مٹر، امرود، بیر اور گنڈیریاں وغیرہ رکھیں تاکہ مادھو کی بہو کو دے۔ اپنی
پھٹی ہوئی ساڑھی کے ایک پلّو سے اُس نے ساڑھی کو ڈھانپا اور مادھو کے گھر کی طرف
چل دی۔
امبو کی ہمّت نہ پڑتی تھی کہ وہ دہلیز کے اندر قدم
رکھے۔ ایک برس پہلے لوگوں کی مخالفت کے باوجود اس کی اس گھر میں پوچھ ہوتی تھی۔ آج
وہ اِس گھر میں کون تھی۔ ایک عورت نے اُسے اندر آتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
’’لو
بہن… وہ رہی تمھاری سوت۔‘‘
کلکارنی اُسے دیکھ کر جل بھُن گئی۔ آہستہ سے بولی۔
’’مرتی بھی نہیں کم بخت… مرے تو میں آٹے میں لوبان اور گھی ریندھوں … دودھ کا
کٹورا پؤں … گنگا نہاؤں ۔ نہ جانے کیا کیا کروں۔‘‘
جب امبو بالکل نزدیک آ گئی تو کلکارنی اپنے چہرے
کو ایک عارضی مسکراہٹ سے مزیّن کرتی ہوئی بولی۔
’’آؤ
بہن! … میٹھا میٹھا کھاؤ، اور میٹھا میٹھا بولو!‘‘
امبو نے اُن دونوں کی باتیں تھوڑی بہت سن لی تھیں۔
سوت کا لفظ کان میں پڑتے ہی اُس کا تمام جسم کانپنے لگا۔ بے ساختہ اُس کی زبان سے
نکلا۔ ’’بھیّا کہاں ہیں؟‘‘
دوسری عورتیں مسکرانے لگیں۔
پچھلے سال ٹھیک اسی دن مادھو اس سے آخری بار ملنے
گیا تھا۔ اس بات کو یاد کرتے ہوئے امبو کا دل مسلا گیا۔ کلکارنی ایک کونے میں
بیٹھی ہوئی تھی۔ اُسے بھی پچھلی سکرانت یاد آ گئی۔ ٹھیک اسی دن امبو نے مادھو کا
کلیجہ نکال لیا تھا۔ مگر وہ اس سکرانت کی رات کا واقعہ بالکل بھول گئی تھی۔ صرف
اُسے مادھو کے وہ الفاظ یاد تھے ’’کسی بھائی بہن کو دکھی دیکھ کر مجھ سے مدن اور
رتی کے سہیلے نہ گائے جاتے ہیں، نہ گائے جائیں گے۔‘‘
تمام عورتیں ہنستی کھیلتی رہیں۔ پھر اوٹی بھرن کیا
گیا۔ سہاگنوں نے ایک دوسری کی مانگ میں سیندور لگایا۔ جب کلکارنی کی بہو کی مانگ
میں پڑوس کی ایک دلہن نے سیندور لگایا تو امبو وہیں کھڑی رہی۔ سہاگن کے پاس بیوہ
کھڑی رہے۔ رام رام !… کارنی نے امبو کو بازو سے پکڑا اور دھکا دے کر برآمدے سے
باہر کر دیا۔ بولی ۔
’’دیکھتی
نہیں کیا ہو رہا ہے؟‘‘
امبو نے چاروں طرف دیکھا کہ کوئی اس کی طرف تو
نہیں دیکھ رہا۔ مگر سب کی نظریں اُسی کی طرف تھی۔ امبو نے منھ چھپا کر رونا چاہا۔
مگر وہ رو بھی تو نہ سکتی تھی۔ برس کا برس دن اور رونا! کارنی جان ہی تو نکال لے
گی! مگر رونا، برس کے برس روز اور عام دن میں کوئی بھی تمیز نہیں کرتا۔ وہ آپی آپ
آ جاتا ہے۔ بلکہ یتیم اور بیوہ کو رونا برس کے برس دن ہی تو آتا ہے۔ اسی دن مرے
ہوئے بالکل نزدیک آ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی اُٹھتے ہیں … ساتھ ہی بیٹھتے ہیں، ہنسو تو
ہنستے ہیں۔ روؤ تو روتے ہیں اور گلے مِل مِل کر روتے ہیں۔ کوئی انھیں دیکھتا ہے
کوئی نہیں دیکھتا!
پڑوس کی بنجارن امبو کے پاس سے گزری اور محض امبو
کو سنانے کی غرض سے گنگنانے لگی… ’’پتی برتا کا ایک ہے وبھچارن کے دوئے!‘‘
… اور
پھر سکرانت کے شور و غوغا میں شامل ہوتے ہوئے بولی … ’’میٹھا میٹھا کھاؤ اور میٹھا
میٹھا بولو!‘‘
امبو کو زمین میں جگہ نہیں ملتی تھی کہ اس میں سما
جائے۔ اِس گومگو کی حالت میں کلکارنی نے اُسے دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ وہ محض
دنیا سے چمٹی ہوئی تھی اور مادھو کے آخری الفاظ کا اُسے کوئی خیال نہ تھا۔
اگلی صبح لوگ کہہ رہے تھے۔ ’’نہ جانے امبو کہاں
چلی گئی۔‘‘
سماج کے ماتھے سے اس کلنک کے ٹیکے کو کلکارنی نے
ہی تو دھویا تھا۔ لوگ اُس سے خوش تھے اور جب وہ بہت خوش ہو کر عقیدت سے کہتے۔
’’بھئی کلکارنی نے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔‘‘ تو سُوکھا سا منھ بناکر بھائی گریب
داس ایک ٹھنڈا سانس لیتا اور کہتا ۔ ’’… آہ! مگر غریب مادھو کے من کی من ہی میں
رہی!‘‘
٭٭٭
No comments:
Post a Comment