باہر چلنے میں آبادی سے کر نہ تغافل یار
بہت
دشتی وحش و طیر آئے ہیں ہونے تیرے شکار
بہت
دعویٰ عاشق بیچارے کا کون سنے گا محشر میں
خیل ملائک واں بھی ہوں گے اس کے خاطر
دار بہت
خشکی لب کی زردی رخ کی نمناکی دو آنکھوں
کی
جو دیکھے ہے کہے ہے ان نے کھینچا ہے
آزار بہت
جسم کی حالت جی کی طاقت نبض سے کر معلوم
طبیب
کہنے لگا جانبر کیا ہو گا یہ تو ہے بیمار
بہت
چار طرف ابرو کے اشارے اس ظالم کے زمانے
میں
ٹھہرے کیا عاشق بیکس یاں چلتی ہے تلوار
بہت
پیش گئی نہ کچھ چاہت میں کافر و مسلم
دونوں کی
سینکڑوں سبحے پھینکے گئے اور ٹوٹے ہیں
زنار بہت
جی کے لگاؤ کہے سے ہم نے جی ہی جاتے دیکھے
ہیں
اس پہ نہ جانا آہ برا ہے الفت کا آزار
بہت
کس کو دماغ سیر چمن ہے کیا ہجراں میں
واشد ہو
کم گلزار میں اس بن جا کر آتا ہوں بیزار
بہت
میرؔ دعا کر حق میں میرے تو بھی فقیر ہے
مدت سے
اب جو کبھو دیکھوں اس کو تو مجھ کو نہ
آوے پیار بہت
No comments:
Post a Comment