ہو کوئی اس بے وفا دلدار سے کیا آشنا
آشنا رہ برسوں جو اک دم میں ہو ناآشنا
قدر جانو کچھ ہماری ورنہ پچھتاؤ گے تم
پھر نہیں ملنے کا تم کو کوئی ہم سا آشنا
باغ کو بے لالہ و گل دیکھ کہتے تھے طیور
جھڑ گئے پت جھڑ میں اب کے ہائے کیا کیا آشنا
اب تو تو لڑکا نہیں عشق و ہوس میں کر تمیز
آشنا سے فرق ہوتا ہے بہت تا آشنا
ملتے ملتے منھ چھپانا بھی لطیفہ ہے نیا
آشنائی یا نہ کریے ہو جیے یا آشنا
تھا جنوں کا لطف مجنوں سے سو دنیا سے گیا
مغفرت ہو اس کو وحشی ہم سے بھی تھا آشنا
اب جو ہاتھ آئے ہیں ہم مت مفت کھو دیجو ہمیں
پھر نہ ہو گا تم کو ایسا کوئی پیدا آشنا
کیسا ہی پانی ہو اس کو پیری میں جانا ہے پیر
تھا جوانی میں مگر تو میرؔ دانا آشنا
No comments:
Post a Comment