مقدس لمحے
اِبنِ مُنیب
صبح
چودہ اگست تھی۔ ایک عجیب سی خوشی اور انتظار اگست شروع ہوتے ہی سبھی دلوں میں پھوٹ
پڑا تھا اور جوں جوں چودہ اگست قریب آ رہی تھی، بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ اُس کی
سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ بے چینی کس بات کی ہے۔ بہر حال وہ خوش تھا اور دوسروں
کی طرح وہ بھی اپنے نئے کپڑے تیار کر کے سو گیا۔ صبح چھٹی تھی اور سب معمول کے
خلاف کافی جلدی اٹھ گئے۔ ناشتے کے بعد ٹیلیفون کالز کا سلسلہ شروع ہوا۔ کبھی کسی
دوست کا فون تو کبھی کسی رشتے دار کا، سب کی زبان پر ایک ہی فقرہ تھا "آزادی
مبارک”۔ ناشتے کے بعد وہ صوفے پر بیٹھا اپنے بیگ میں سے کچھ تلاش کر رہا تھا کہ
اُس کی ننھی سی بہن ایک کاغذ کا ٹکڑا اس کے ہاتھ میں تھما کر بولی
"بھائی
جان! آزادی مبارک”۔
اِس چھوٹے سے کاغذ پر پاکستان کا جھنڈا بنا کر اس
میں بے ربط سے رنگ بھر رکھے تھے اور ایک تنکے پر پورے کاغذ کو چپکایا ہوا تھا۔ وہ
اس’جھنڈی’ کو آنکھوں کے قریب لا کر نہایت غور سے دیکھنے لگا۔ اس ننھے سے پرچم کے
چاند ستارے میں، جن میں کہیں کہیں سبز رنگ بھی غلطی سے بھر دیا گیا تھا، اُسے جیسے
پورا مینارِ پاکستان نظر آنے لگا، جس پر پاکستانی پرچم بڑے فخر سے لہرا رہا تھا۔
نیچے کچھ ہلچل تھی اور ایک آواز گونج رہی تھی۔ "اے میرے ہم وطنو!” مینارِ
پاکستان کے سائے تلے ایک نوجوان نہایت پر جوش خطاب کر رہا تھا۔ اس کے چاروں طرف
خوش و خرم چہرے نظر آ رہے تھے۔ ہر چہرے پر ایک نئی امنگ اور تازگی تھی۔ سبھی
ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور اس نوجوان کی تقریر سُن رہے تھے۔
"اے وہ قوم! جس نے اس مقام پر کھڑے ہو کر جناح کی قیادت میں پاکستان بنانے کی
قسم کھائی تھی۔ اے وہ قوم! جس نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی
تھیں۔ اے وہ قوم! جس نے اس مٹی کو اپنے خون سے سینچا تھا۔ اے وہ قوم! جس نے اسلام
کی خاطر اپنے گھر، جان، مال سب ٹھکرا دیئے تھے”، نوجوان کا جوش بڑھتا چلا جا رہا
تھا۔ "میں تم میں سے ایک ایک کو مبارکباد دیتا ہوں، کہ تم نے اور تمھارے آباء
نے جس گلشن کے لئے جدوجہد کی تھی، تم نے جس وطن کا عہد کیا تھا اور تم نے جس
پاکستان کے لئے دعائیں مانگی تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں ‘آزاد’ پاکستان ہمیں مل چکا
ہے!”۔ سامعین کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور ایک پر زور آواز گونجی
"پاکستان!”، خوشی سے لبریز دلوں نے جواب دیا "زندہ باد”۔ نوجوان نے اپنی
تقریر جاری رکھی، "آپ جانتے ہیں کہ اِس دہائی کے آغاز سے اللہ تعالی نے ہم پر
خاص کرم فرمایا، ہم سب نے بالآخر اپنے اس گھر کو بہتر بنانے کی ذمہ داری قبول کی،
ہمارے نوجوانوں اور دانشوروں نے کمر باندھی اور تعلیم عام کرنے کی قسم کھائی۔ علم
کا نور دھیرے دھیرے اندھیر دریچوں سے جھانکنے لگا۔ علم سے بے بہرہ اور دنیا کی نظر
میں ‘عقل کے اندھے’ اب کھلی آنکھوں سے زمانے کے تیور دیکھنے لگے، اور جس طرح انیس
سو سینتالیس میں ایک غلام قوم نے آزادی حاصل کی تھی، اب ایک آزاد قوم عظمت حاصل
کرنے لگی۔ اور۔ ۔ ۔
"بھائی
جان اب یہ واپس بھی کر دیں”
ایک معصوم آواز نے اس کے خیالات کا ربط توڑ دیا۔
ننھی بہن اس کے ہاتھ سے اپنی محنت سے بنائی ہوئی جھنڈی لے کر باہر بھاگ گئی۔ مگر
وہ اب بھی کھویا کھویا سا بیٹھا تھا۔ وہ شاید حقائق کی دنیا میں لوٹنے سے ڈر رہا
تھا۔ بچی کا معصوم جذبہ اسے اچانک ایک ایسی دنیا میں لے گیا تھا جہاں تمنائیں
حسیناؤں کی طرح قطار اندر قطار رقص کیا کرتی ہیں۔ وہ اِس دنیا میں صرف چند لمحوں
کے لئے ہی تو گیا تھا۔ مگر اتنا سکون؟ اتنی ٹھنڈک؟ یہ لمحے واقعی بڑے مقدس تھے۔
اُسے پتا بھی نہ چلا اور ایک ننھا سا قطرہ اس کی آنکھ سے ٹپک کر فرش پر پڑی ہوئی
گرد میں ایسے جا ملا جیسے امنگیں انسان کے ساتھ ہی مٹی میں دفن ہو جایا کرتی ہیں۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment