خراسانی
اِبنِ مُنیب
اَفَرَایْتَ
مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ ھَوَاہ
"کیا
تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”
خراسانی آیت پڑھتے ہوئے چونکا۔
نہیں، یہ میں نہیں ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُس نے اپنے
آپ کو تسلی دی۔
میں نے اپنی خواہش کو اپنا خدا نہیں بنایا۔ یہ میں
نہیں ہوں۔
"کیا
تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”
سوچتے سوچتے اُسکی نظر ایک بار پھر آیت کے الفاظ
پر دوڑی۔
کیوں نہیں؟ تمہاری فتح اور غلبے کی خواہش تمہارا
خدا ہی تو ہے۔ ۔ ۔
نجانے کیوں آج اُس کا ذہن اُس سے الجھ رہا تھا۔
ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ میں دین کا مجاہد ہوں۔ یہ
میں نہیں ہوں۔ ۔ ۔
"کیا
تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”
آیت نے جیسے تیسری بار اُس سے سوال کیا۔
بھلا خُدا کو تم جیسے مجاہدوں کی کیا ضرورت ہے جو
مایوسی کو دِین بنا بیٹھے ہیں؟ جو جِیت اور غلبے کی خاطر درندگی کی سب حدیں پار کر
چکے ہیں؟۔ ۔ ۔
نہیں، نہیں، نہیں، یہ میں نہیں ہوں۔ ۔ ۔
کیوں غلط بات بولتے ہو؟ تمہارا خدا تمہاری خواہشِ
نفس ہی ہے۔ جیت کی خواہش۔ غلبے کی خواہش۔ تم اِسی کو پوجتے ہو، اِسی کے بندے ہو،
اِسی کی خاطر مایوس اور گھناؤنے حربے اختیار کرتے ہو۔ ۔ ۔
بالکل نہیں بالکل نہیں۔ میں دن کا مجاہد ہوں۔ میں
خدا کا نائب ہوں۔ یہ میں نہیں ہوں، نہیں ہوں۔ ۔ ۔
پھر یہ گھٹن کیسی تھی؟
آیت پر دوبارہ نظر دوڑائے بغیر اُس نے فوراََ مصحف
بند کر دیا اور اپنے ارد گرد کا جائزہ لینے لگا۔ حجرے کی دیواریں انتہائی خاموشی
سے اُس کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ اُس نے اپنے حواس کو قابو کرنے کے لیے سر کو جھٹکنے
کی کوشش کی مگر سر پر بندھی دستار بہت وزنی ہو چکی تھی اور اب اُس کی گردن اِس
ناقابلِ برداشت وزن تلے دبی جا رہی تھی۔ اُسے لگا کہ کسی بھی لمحے اُس کی گردن ٹوٹ
جائے گی۔ گھبراہٹ کے عالم میں اُس نے دستار دونوں ہاتھوں میں پکڑی اور دیوانہ وار
زمین پر دے ماری۔ گردن سیدھی ہوئی اور گھٹن کم ہونے لگی۔ حجرے کی دیواریں اپنی
اپنی جگہ واپس چلی گئیں۔ اب وہ اپنے وہم پر مُسکرایا اور عادتاً ریڈیو کے ڈائل پر
انگلیاں گھمانے لگا۔ مختلف اسٹیشنوں کو ٹِیون کرتے کرتے اُس کی انگلیاں ایک خاص
اسٹیشن پر آ کر رک گئیں۔ سورہ جاثیہ کی تلاوت چل رہی تھی۔ ریڈیو سے جنم لیتی قاری
کی آواز حجرے میں پھیلی
"کیا
تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”
اُس نے گھبرا کر ریڈیو بند کر دیا۔ پھر اُٹھا اور
اُٹھ کر وضو کے لیے رکھے پانی کے برتن کی طرف بڑھا، تیزی تیزی سے وضو کیا اور حجرے
سے باہر نکل گیا۔ ارد گرد کوئی بھی نہیں تھا۔
شاید جماعت شروع ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔
یہ سوچ کر وہ نماز کی جگہ پہنچا۔ امام کی مانوس
آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی
"کیا
تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”
اُس کا سر بُری طرح چکرایا۔ ساتھ ہی کسی نے اُس کی
دونوں ٹانگوں پر زور دار ضرب لگائی اور وہ دھڑام سے زمین پر آ گرا۔ اُس کے ساتھی
اُس کی طرف دیکھے بغیر نماز میں مشغول رہے۔ وہ ہانپتا کانپتا واپس اپنے حجرے کی
طرف بھاگا۔ حجرے کی دیواریں ابھی تک اپنی اپنی جگہ خاموش کھڑی تھیں۔ وہ اپنا سر
دباتا ہوا بستر پر لیٹ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اُس کی آنکھ لگ گئی۔ نجانے کتنی دیر
سویا ہو گا کہ حجرے کے باہر ایک زبردست شور سے اُس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ فورا باہر
نکلا۔ اُس کے ساتھی ایک چھوٹے سے کمپیوٹر کے گرد جمع تھے اور زور دار نعرے لگا رہے
تھے۔ سکرین پر ایک تباہ شدہ عمارت بار بار دکھائی جا رہی تھی۔ ایک رپورٹر تیزی
تیزی سے بول رہا تھا
"اطلاعات
کے مطابق حملہ آور بچیوں کے اسکول میں سامنے کے دروازے سے داخل ہوئے۔ انہوں نے
چوکیدار کو قتل کیا اور پھر مختلف کمروں میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کرتے رہے۔
پولیس اور فوج کی نفری کے پہنچتے ہی حملہ آوروں نے اپنے آپ کو دھماکا خیز مواد سے
اُڑا دیا۔ ”
رپورٹر کی آواز کانپ رہی تھی۔
"عمارت
کے اندر ہر طرف کتابیں اور خون بکھرا ہوا ہے۔ ”
سکرین پر اب عمارت کے ساتھ ساتھ ہلاک ہونے والی
بچیوں اور اُن کے حواس باختہ والدین کی فوٹیج دکھائی جا رہی تھی۔ اتنا خون اور خوف
دیکھ کر خراسانی کے کلیجے میں ٹھنڈک پڑ گئی اور وہ بے اختیار چِلّانے لگا
"اب
اِن کے دلوں سے ہمارا خوف کوئی نہیں نکال سکتا۔ اب ہم غلبہ پا کر رہیں گے یا پھر
اِس کی خاطر اِن کے معصوموں اور نہتوں کو مارتے رہیں گے۔ غلبہ اور صرف غلبہ یہی
ہماری خواہش ہے۔ یہی ہمارا خدا ہے۔ ہم اِسی کے بندے اور غلام ہیں”
چِلاتے چِلاتے اُس کی نظر اپنے ساتھیوں پر پڑی
جو اب سکرین چھوڑ کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
مگر اب اُسے کسی بات کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ آج پہلی
بار اُس نے کھُلے عام اپنی حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا۔ اپنے آپ کو پہچان لیا تھا۔
ذہن کے کسی کونے میں ایک آواز گونجی
"کیا
تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”
٭٭٭
No comments:
Post a Comment