جھوٹے بھی پوچھتے نہیں ٹک حال آن کر
انجان اتنے کیوں ہوئے جاتے ہو جان کر
وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر
جھمکے دکھا کے باعث ہنگامہ ہی رہے
پر گھر سے در پہ آئے نہ تم بات مان کر
کہتے نہ تھے کہ جان سے جاتے رہیں گے ہم
اچھا نہیں ہے آ نہ ہمیں امتحان کر
کم گو جو ہم ہوئے تو ستم کچھ نہ ہو گیا
اچھی نہیں یہ بات مت اتنی زبان کر
ہم وے ہیں جن کے خوں سے تری راہ سب ہے
گل
مت کر خراب ہم کو تو اوروں میں سان کر
تا کشتۂ وفا مجھے جانے تمام خلق
تربت پہ میری خون سے میرے نشان کر
ناز و عتاب و خشم کہاں تک اٹھائیے
یارب کبھو تو ہم پہ اسے مہربان کر
افسانے ما و من کے سنیں میرؔ کب تلک
چل اب کہ سوویں منھ پہ دوپٹے کو تان کر
No comments:
Post a Comment