Saturday 20 May 2017

Janaza Kahan Hai & Taettul " Famous Urdu Shot Story By Rajinder Singh Bedi,


































تعطّل
راجندر سنگھ بیدی
  اُس  سال میں جس ہاؤس بوٹ میں ٹھہرا تھا، اُس کا نام سمفنی تھا۔
مجھے ہنسی اس لیے آتی ہے کہ سمفنی انگریزی میں نغمے کو کہتے ہیں اور اِس ہاؤس بوٹ سمفنی میں نغمہ نام کی کوئی چیز ہی نہ تھی۔ ٹورِزم کے محکمے کے حساب سے یہ بوٹ تیسرے درجے کا تھا۔ یہ بات نہیں کہ میں اس سے اوپر کے درجے کا بوٹ کرایے پہ لینے کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ قصّہ صرف یہ تھا کہ اُس سال کشمیر میں ٹورسٹ ہی ٹوٹ کے پڑا تھا اور اچھے درجے کے سب ہاؤس بوٹ پہلے آنے والوں اور کالے بازاریوں نے لے لیے تھے۔ چھوٹے سے چھوٹا ہوٹل تک، سیر سپاٹے والوں سے پٹا پڑا تھا۔ سمفنی کی دیودار پرانی ہونے کی وجہ سے سڑ گل گئی تھی اور برسات اُس کی دیواروں پر چھا جوں رُوگئی تھی۔ کاریڈور میں چلتے تھے تو پوری ناؤ ایک طرف ڈول ڈول جاتی تھی اور پانو کے نیچے تختے ایک عجیب طرح کی چوں چیخ کی آواز پیدا کرتے تھے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ کوئی ہنی مون جوڑا ایک دور ات سے اوپر اس میں نہ رہتا تھا۔ پھر غسل خانے میں تو بڑی بڑی دراڑیں تھیں جن کے نتیجے سے جھیل کا گدلا پانی انسان کے ننگے پن کا منھ چڑاتا تھا۔
یوں جھیل کا پانی گدلا نہ تھا۔ برسات سے اِدھر تو وہ ہمیشہ گوری کے بدن میں وریدوں کی خُنک سی نیلاہٹ لیے رہتا تھا، لیکن حمدیا—غلام حمدانی، سمفنی کے مالک اور پڑوس کے ’فلائنگ جیک‘ اور ’پِن اَپ‘ کے مخدوم، اندر کا کوڑا کرکٹ اور گندگی باہر جھیل ہی میں پھینکتے اور پھر کھانا بنانے کے سلسلے میں وہی پانی استعمال کرنے کے عادی سے ہو گئے تھے۔ ہم ہندستانی تو خیر لگاتار گندگی میں رہنے کی وجہ سے دافعِ جراثیم ہو گئے ہیں۔ لیکن صرف زکام ہی سے چھُٹّی پاجانے والے مغربی ٹورِسٹ ان جراثیموں کو برداشت نہ کرسکتے تھے۔ چنانچہ ’فلائنگ جیک‘ میں رہنے والے سینیؤرکارڈیرو نے اپنے بوٹ کے مالک غلام قادِرے کے خلاف شکایت کر دی، جس سے اُن بوٹ والوں اور ہانجی لوگوں کی نظر میں مَیں اور بھی بڑا فرشتہ ہو گیا۔
پھر یہ ’سمفنی‘ فلائنگ جیک‘ اور ’پِن اَپ‘ جھیل میں ایسی جگہوں پہ کھم گڑے تھے کہ ایک طرف تو سامنے کی پہاڑی شنکر آچاریہ منظر کی خوبصورتی کو قتل کیے دیتی تھی اور دوسری طرف ڈل جھیل اور جہلم دریا کے بیچ کا  لاکِنگ سسٹم جذبوں کے سیلاب کا گلا گھونٹ گھونٹ دیتا تھا۔
البتہ سمفنی کی چھت سے بائیں طرف دور ہر مکھ سے ادھر کی پہاڑیوں میں کبھی کوئی سُرخ سفید پنچھی اپنے سُبک سے پروں پر تیرتا ہوا نیچے کی زمرّدیں رِداؤں میں گم ہوتا، تو یوں لگتا، جیسے میری رتنا کے چہرے پر کوئی شرارت کا خیال آیا اور نکل گیا۔
یہ رتنا کون تھی؟… کوئی نہیں۔
فلائنگ جیک کا سینیؤر کارڈیرو  گواٹے مالا سے آیا تھا اور ٹوٹی پھوٹی امریکن انگریزی جانتا تھا۔ وہ ناٹے قد کا آدمی تھا، جس کا چہرہ کچّے گوشت کی طرح سرخ اور پھولا ہوا تھا، جیسا کہ زیادہ شراب نوشی اور عیّاشی سے ہو جاتا ہے۔ اُس کے پورے سر پر بال نہیں تھے، البتہ ماتھے پر ایک چھوٹا سا گپھّا تھا، جو سینیؤریتا کے ساتھ لڑائی کے بعد اور بھی چھوٹا ہو جاتا تھا۔
سینیؤریتا کارڈیرو ایک دُبلی پتلی عورت تھی، جو ہمیشہ لنگری پہنے فلائنگ جیک میں اِدھر اُدھر جاتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ اکثر دن کے وقت وہ کھڑکی میں اوندھی پڑی جھیل کے پانی میں اپنی انگلیوں کے کیکڑے چلاتی رہتی اور رات کو وہیں پڑی پڑی پانی میں چاند کا عکس دیکھا کرتی۔
مجھے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ ہفتے بھر سے زیادہ یہاں نہیں رہیں گے، کیونکہ راتیں دھیرے دھیرے اماوس کی طرف لپک رہی تھیں۔
سینیؤرکارڈیرو کیوں تیسرے درجے کے ہاؤس بوٹ میں ٹھہرا؟—یہ کوئی بھید بھری بات تھی۔ سامنے بُولے وارڈ پر یونائٹیڈ نیشنز کے کچھ افسر اپنی ٹوپیوں پر ہلکے نیلے رنگ کی پٹّیاں جمائے ہوٹل پیلیس اوبرائے کو جاتے اور لوٹتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ کبھی ان میں سے کسی کی جیب بُولے وارڈ پر ہمارے سامنے کے حصّے پہ رُکتی اور افسر اتر کر کنارے پر سے آواز دیتا—سینیؤر … سینیؤر کارڈیروووو
آواز گونجتی تو یوں معلوم ہوتا، جیسے کوئی کہے جا رہا ہے—رو رو  رو رو
ایک دن ایسی ہی آواز آئی اور میں نے دیکھا سینیؤریتا پانی سے اپنی انگلیوں کا کیکڑا نکال کر ’فلائنگ جیک‘ میں اندر کی طرف لپکی۔ لِنگری میں اُس کے جسم کا بھُوتیا ڈھانچہ دکھائی دے رہا تھا۔
مجھے یوں لگا، جیسے بولے وارڈ پر کھڑے جنرل کو سینیؤر کے جواب کی ضرورت ہی نہیں۔ اُس نے پیٹھ ہماری طرف کر کے شنکر آچاریہ کی پہاڑی کو دیکھا، جہاں کہیں سے آئینے کا عکس کانپ رہا تھا۔ عکس کبھی دھیرے دھیرے ہلتا، کانپتا اور کبھی تیز تیز۔ وہ بجلی کی طرح ایک کھوہ میں گُم ہو گیا، اور پھر لوٹ کر پہاڑی پر پھولوں کو ایک کیاری کو روشن کرنے لگا۔ پوست کے پھولوں کی سرخی اس روشنی میں ایک دم فلوریسینٹ ہوا اُٹھی تھی۔
جنرل نے مُڑ کر ’فلائنگ جیک‘ کی طرف دیکھا، ہاتھ اُٹھا کر ٹوپی چھوئی اور جیسے سینیؤریتا کو سلام کرتا ہو، جیپ میں بیٹھ کر سرحدوں پر لگی ’آگ بجھانے‘ کے لیے چل دیا اور میں ایک معمولی ہندستانی کی طرح ’’اپنا کیا ہے؟‘‘ کے جذبے سے سرشار، مڑ کر سمفنی کے اندر گلدان میں پڑے سوکھے سڑے گلیڈی اولا کو نکالنے، پھینکنے اور گنگنانے لگا۔
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟
جب کہ تم بن نہیں کوئی موجود،
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا؟
کیا ہے…؟ کیا ہے؟ یہ کیا —کیا ہے؟
شہر میں ہنگامہ ہو رہا تھا۔ ایک طرف سے مولوی فاروق کے حواری نکل آئے تھے اور دوسری طرف سے مندوبین کی بھاری تعداد، جو کسی کانفرنس کے سلسلے میں ریاست کے دور افتادہ علاقوں، جمّوں کی تحصیل اور کشتواڑ کی طرف سے آئی تھی۔ ان میں ڈوگرے تھے، پھر گوجر، بروالے، استصوابیے
اس جم غفیر میں کالج کے طالب علم، یہاں تک کہ طالبات بھی بُرقعے وُرقے پھینک کر شامل ہو گئی تھیں۔ جب اتنے سارے لوگ ایک دم لال چوک، ریذیڈنسی روڈ کے نزدیک جمع ہو جائیں، تو تانگے کا دھُرا ٹوٹنا بھی جھگڑے کا بہانہ بن سکتا ہے۔ اور لڑکی کی تو بات ہی مت کیجیے جو اپنے وجود ہی سے اتنی خستہ اور بھُربھُری ہوتی ہے کہ ہاتھ تو ایک طرف، نظر ہی اُسے ریزہ ریزہ کر ڈالتی ہے۔ اُسے ہی نہیں، اُس قوم یا قومیت کی آبرو کو بھی، جس کی پیداوار ہونے کا اُسے شرف حاصل ہوتا ہے۔
یہ میں نے اپنے ہی ملک میں دیکھا ہے کہ لڑکی کی عزّت اتنا سماجی حیثیت نہیں رکھتی، جتنا سیاسی—— ابھی پچھلے ہی دنوں ایک ہندو لڑکی کسی مسلمان لڑکے کے ساتھ بھاگی تھی، جس سے ایکا ایکی ہندوؤں کی اقلیت کو خطرہ پیدا ہو گیا اور وے ڈیپیوٹیشن پر ڈیپیوٹیشن چیف منسٹر کے پاس جانے لگے۔ مرکز سے افسر لوگ جانچ کے لیے آنے لگے۔ اقلیت تو ایک طرف، اکثریت بھی ڈر سے مِلی جُلی فتح کے احساس سے کانپ رہی تھی۔ کیونکہ فتح اتنی مشکل نہیں، جتنا کہ اُس کے حصول کو برقرار رکھنا جوکھِم ہے۔
اُس دن وادی کے سیکڑوں سال پُرانے چِنار خاموش کھڑے اس نئی صورتِ حال کو دیکھ رہے تھے اور ہوا اُن کے سروں پر رکھی ہوئی راج ترنگنی اور للّا عارفہ کے صفحے اُلٹ رہی تھی
ایسی حالت میں اگر میں کشمیر کے جمالیاتی حُسن کا ذکر کرو ں بھی، تو کیسے؟ میں ایک ہندو ہوں، ازل ہی سے بُت پرست، جو دلّی کے ایک مضاف میں رہتا ہوں۔ یہاں کشمیر کی خوبصورتی کا ذکر کرتا ہوں تو مجھے خود ہی یہ احساس ہونے لگتا ہے، جیسے میں کسی مسلمان لڑکی کو چھیڑ رہا ہوں، جس سے جھگڑا ہونے کا ڈر ہے اور اِدھر کی اکثریت، گلا گھونٹ کر مجھے مار دے گی۔ پھر سوچتا ہوں، ڈل، وُولر اور گگری بل کب سے مسلمان ہوئے۔ یہ سامنے کی پہاڑی شنکر آچاریہ ہے تو        تختِ سلیمان بھی۔ اسلام آباد ہے، تو اننت ناگ نام بھی چل رہا ہے۔ پِٹن کے پنڈت لوگ اس وقت بھی مٹن کھا رہے ہیں۔ پامپور کے زعفران کا رنگ اسلامی سبز کیوں نہیں؟ انسانی محنت اور آسمانی برکت وادی میں جو گیہوں اور شالی—چاول کے دانے پیدا کرتی ہے، اُن کا ختنہ کر کے کیوں نہیں بھیجتی؟
ہاں، یہ سرپھرے پن، بے عقلی کی باتیں ہیں۔ لیکن اس عقل کے تعطل ہی کے سلسلے میں تو آدمی کشمیر آتا ہے، تہذیب کا پورا شور، شہروں کا کثیف دھواں پیچھے چھوڑتے ہوئے۔ اب اگر وہ اکیلا ہو اور اپنے من کے اندھیرے اور تنہائی سے گھبرا کر کہیں باہری خوبصورتی پر جھپٹ پڑے، تو اُس میں اُس ایک شخص کا قصور ہوا، پوری قوم کا کیسے ہو گیا؟ بات اخلاقی اور سماجی سے سیاسی کیسے ہو گئی؟
تعطل… آپ بچّے سے کیوں کھیلتے ہیں؟ اس لیے نا کہ کچھ دیر کے لیے زندگی کا   صرف و نحو بھول سکیں۔ شراب کیوں پیتے ہیں؟ اس لیے نا کہ وجود میں کچھ کم پڑتا ہے، یا پھر زیادہ ہو جاتا ہے۔ عورت سے محبت کیوں کرتے ہیں؟ اسی لیے نا کہ … میں پوچھتا ہوں، بنا ان سب باتوں کے آپ جی سکتے ہیں؟
یہ تعطل کشمیر میں دساور ہی سے نہیں آتا، یہاں کی اپنی پیداوار بھی ہے، ہوائیں اور نظارے جس کی پوری مدد کرتے ہیں۔ آدمی، مرغِ کباب، بلکہ میں تو کہتا ہوں، کبابِ مرغ ہو تو بھی اُس کے بال و پر لوٹ آتے ہیں۔ برسوں سے سویا ہوا جمال ایکا ایکی انگڑائی لے کر جاگ اُٹھتا ہے۔ ہرا بجلی رنگ کا ہرا ہو جاتا ہے اور سرخ بجلی کا رنگ سرخ۔ اور محبت کے گہرے احساس سے آنکھیں چشمے اور جھیلیں ہو جاتی ہیں۔ جذبے ایک ازلی اور ابدی مسرت کے احساس سے شوخ و شنگ پہنے ڈونگوں اور شکاروں میں کہیں بھی چل نکلتے ہیں۔ جیسے ہی ڈل اور نگین کے کناروں پر بُنی ہوئی سفیدوں کی جھالر سے شکارا پرے جاتا ہے، پانی میں آسمان کی وسعت اور اس میں چھپی ہوئی ٹھنڈی، نیلی پرواز منعکس ہونے لگتی ہے۔ اگر بادل ہوتے ہیں، تو پھر شکارا نہیں ہوتا اور شکارا ہوتا ہے، تو بادل… آنکھیں اپنے آپ بند ہونے لگتی ہیں۔ اور کان سماعت کی حدوں سے پرے کی سننے لگتے ہیں۔ پہلے تُمبک ناڑی سنائی دیتی ہے، پھر سنطور۔ فضا میں ایکا ایکی بچ نغمے اور رُف جاگ اُٹھتے ہیں اور الفاظ معنی کی تلاش میں دور نکل جاتے ہیں۔ پھر گُلریزؔ اور مہجورؔی کہیں گھاٹیوں، پہاڑیوں میں سے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اُنھیں واپس لاتے ہیں
اُس دن جب حمدیا بازار سے پیاز گوشت لایا، تو اُس کی حالت ہی دوسری تھی۔ اُس کے پانو زمین پر یقینی انداز سے نہ پڑ رہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا، جیسے وہ بہت زیادہ تمباکو پی گیا ہے، یا کوئی ایسا نشہ کیا ہے، جس سے اُس کے ہاتھ کی انگلیوں میں رعشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ہو سکتا ہے، وہ زینب سے ملا ہو
زینب حمدیا کی معشوقہ تھی اور ہبّہ کدل کے پاس اپنے آبائی مکان میں رہتی تھی۔ ایک منظم یور، جس کا نام شاید غلام رسول تھا، کی معرفت اس کے باپ کو پیغام بھیجا گیا، جو تھوڑی لے دے کے بعد منظور ہو گیا۔ پھر حسب معمول بند نوٹ میں چینی سے بنا ہوا ایک بڑا سا طشت بانٹا گیا۔ شال دی گئی۔ خدا اور رسول ہوا۔ مگر نشانی کی تاریخ تک پہنچتے پہنچتے سب کباڑا ہو گیا۔
بات یہ ہوئی کہ بیچ میں زینب کا ممیرا بھائی کود پڑا، جو یہیں سامنے کے ہوٹل میں بیرا گری کرتا تھا۔ افلاس اور عشرت اُس میں گلے ملی تھیں۔ مگر شریعت کی رو سے اُس کا زینب پر حق زیادہ تھا۔ چونکہ قسمیں لی جاچکی تھیں، شیرینی بٹ چکی تھی، اس لیے معاملہ قاضی کے پاس پہنچا۔
فریقین میں صلح کرانے کے سلسلے میں ایک تیسری ہی بات ہوئی جس کا ذکر کرتے ہوئے بھی گھن آتی ہے… دیکھیے آپ اصرار نہ کیجیے… ایسی ہی بات ہے، تو پھر سنیے…—اٹھارہ انیس برس کی زینب اپنے ماں باپ کی ایک ہی اولاد تھی۔ ان کی تمام جائیداد کی وارث، جو دو مکانوں اور شالٹینگ کے پاس بیس ایک بیگھا زمین پر مشتمل تھی اور جو چوری چھپے وڈداری میں دی ہوئی تھی۔
زینب حمدیا کے لیے گو شتابہ ہو گئی— دودھ میں پکا ہوا گوشت، جو ایک طرف تو بہت ہی لذیذ ہوتا ہے اور دوسری طرف کشمیر طعمہ کا آخری حصّہ۔ جب اُسے مہمان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ اُس کے بعد اور کچھ نہیں آئے گا۔
صلح کرانے والے قاضی صاحب نے ایک دن اس کھانے کو دیکھ لیا، جب کہ وہ ڈھکا ہوا نہیں تھا اور
اب زینب کو حمدیا قبول کرتا ہے اور نہ اُس کا ممیرا بھائی، ممّا۔ ہاں، جب زمین جائیداد کی وجہ سے ممّا مان جاتا ہے، تو حمدیا تن کے کھڑا ہو جاتا ہے اور قانون کے سب کاغذ وغیرہ نکال لاتا ہے اور اگر حمدیا اُسے نکاح میں لینے پر راضی ہو جاتا ہے، تو ممّا حق شفعہ کی عرضی دے دیتا ہے۔ قاضی محلہ بدر ہو چکا ہے اور زینب مکان کے بُخارچے میں بیٹھی ایک ایسی شال پر باریک کام کر رہی ہے، جس کا کوئی گاہک نہیں
میں نے حمدیا کو سمجھانے کی کوشش کی—— دیکھو حمدیا، اس میں اس غریب زینب کا تو کوئی قصور نہیں…!
حمدیا نے میری طرف یوں دیکھا، جیسے میں لاطینی میں بات کر رہا ہوں۔ بالکل غیر متعلق طریقے سے اس نے بات شروع کی——آپ نہیں جانتے، مہاراج؟
میں؟… میں کیا نہیں جانتا؟
آج کا قتل!؟
قتل؟ کس کا؟ کس نے؟ کون؟ میں نے ایک دم اُٹھتے ہوئے کہا… میز سے نیچے اخروٹ کی لکڑی سے بنی ہوئی کرسی تڑخ گئی۔ کیا زینب …؟
زینب نہیں—ایک آدمی، سامنے ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔
پھر؟
اس کا کٹا ہوا سروہاں چار چِناری میں ملا اور دھڑ ہوٹل کی ٹٹّی میں۔
نہیں!
ہاں مہاراج!
میں نے گھوم کر دور، بائیں طرف چار چناری کی طرف دیکھا، جو جھیل ڈل کے ٹھیک بیچ ایک چھوٹے سے ٹاپو کی شکل میں تھی اور جس پر چنار کے چار پیڑ کھڑے تھے۔
دن کے وقت لوگ وہاں پِک نِک کرتے اور چاندنی راتوں میں رومانٹک جوڑے دودھ اور پانی کے چھینٹے اُڑاتے… وہاں، چار چناری میں کٹا ہوا سر … اب وہ جگہ میرے لیے کبھی رومان پرور نہ ہو گی، حالاں کہ میرا ارادہ تھا کہ ایک دن
سامنے بولے وارڈ پر جیپ نیلا سفید جھنڈا لہراتے ہوئے نکل گئی۔ پھر ایک ٹورسٹ بس گزری، جو شاید مرد عورتوں کو نشاط، شالیمار کی طرف لے جا رہی تھی۔ ایک تانگہ رُکا اور اس میں سے سیر کرنے والے کچھ لوگ نکلے اور سمفنی کے سامنے والے اڈّے کی طرف مڑے۔
اُنھیں دیکھتے ہی شکارے والوں نے اپنے اپنے چپّو چلانے شروع کر دیے اور کشتیوں کو کنارے کی دلدل اور پتھروں میں یوں کھُبو دیا، جیسے مہمان لوگ کھانا کھانے کے بعد خلال،پھر سے اسٹینڈ میں کھُبو دیں۔ شکارے والے زندگی اور موت سے بے خبر گاہکوں کے لیے جھپٹ رہے تھے۔ ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ گالیاں بک رہے تھے… دَل سا، ہئیا ر مضانہ! چھٹس
مقتول شخص کون تھا؟ میں نے حمدیا سے پوچھا۔
سنتے ہیں آندھرا کا تھا۔
ہندو ہو گا؟
راجو نام تھا۔ ہو سکتا ہے، معرا ج دین——
نہیں۔
میری نا امیدی بڑھ گئی—نہیں، وہ ہندو ہو گا، ضرور ہندو ہو گا… میں نے ہنکارا۔
حمدیا اور میں، دونوں ہی ایسے آدمی تھے جو حالات میں بد سے پہلے بدترین کو دیکھ لیتے ہیں۔ اُس کے خیال ہی سے ڈرتے، کپکپاتے ہیں۔ لیکن آخر اسی میں سنسنی آمیز تسکین پاتے ہیں۔ یہ چار چناری … میں تو کبھی رتنا کو وہاں نہ لے جا سکوں
رتنا کوئی نہیں تو کیا؟ کبھی تو ہو گی… یہ ملک، کشمیر جس کے بارے میں کچھ کہتے ہی اُس کا حُسن محدود ہو جائے، یا میری ماں کے سیدھے سادے لفظوں میں—اتنا خوبصورت، جتنا کہ کوئی جھوٹ بولے…اور اس میں ایک کٹا ہوا سر، جیسے کسی شریف گھرانے کی عورت نے کوئی نہایت ہی غلیظ گالی بک دی۔
سامنے کی تیرتی ہوئی کھیتی اور قریب آ گئی تھی۔ ابھی دو تین دن پہلے وہ کچھ نہیں تو سات آٹھ فٹ پرے تھی اور اب مشکل سے چھ انچ ۔ ہم سمفنی سے اُس پر لپک سکتے تھے اور کرسی رکھ کر اس پر بیٹھے ہوئے دھوپ تاپ سکتے تھے۔ پیری میسن یا پلے بوائے پڑھ سکتے تھے… تعطل… اخبار پڑھ سکتے تھے، مگر نہیں… اُس میں قتل کی خبر ہو گی… کشمیر میں قتل
مرڈر اِن دی کیتھیڈرل!
تبھی مجھے کچھ یاد آیا اور میں نے حمدیا سے پوچھا—کس نے کیا یہ قتل؟ کیوں کیا؟
حمدیا نے کوئی جواب نہ دیا۔
کیا کسی لڑکی کی بات ہے؟ میں نے پوچھا۔ حمدیا نے ’’ہاں‘‘ میں سر ہلا دیا۔
مسلمان لڑکی؟
حمدیا نے پھر کوئی جواب نہ دیا، جس کا مطلب تھا—ضرور وہ مسلمان ہو گی۔ اب یہاں آٹے میں نمک کے برابر ہندو کیسے بچیں گے؟ میں ہی بے وقوف ہوں، جو یہاں کی بہت ہی ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے بھی چلا آیا۔
مان لو دنگا نہ بھی ہو، تو ہو سکتا ہے دشمن الپتھّر، گل مرگ کی رداؤں میں سے ہوتا ہوا بڑ گام اور اننت ناگ یا اسلام آباد کی طرف پھیل جائے اور وطن کو بھاگنے کی ایک ہی سڑک کو کاٹ دے۔ ہوائی جہاز سے کتنے لوگ جا سکیں گے؟ مگر نہیں، فوج کے جیالے بھی تو ہیں، جو اُولوں اور برف کے بیچ میں ڈٹے ہوئے سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں
بہت کُریدنے پر مجھے پتہ چلا کہ مقتول راجو کی بیماری، عقل کا تعطل، ایک خطرناک صورت اختیار کر گئی تھی۔ تیسرے درجے کی ٹی بی یا کینسر کی طرح۔ طوائفوں کا بازار—تاشا دان تو قانوناً بند تھا، اس لیے بیرا اُسے اپنی پہچان کی کسی دھندے والی کے پاس لے گیا، جہاں اُس نے جیب سے نوٹ نکالے، جو گنتی میں تین ہزار کے قریب تھے اور اُس بیرے نے دیکھ لیے۔ پھر جب وہ اپنے ہوٹل کو لوٹ کر آیا، تو وہی —دھڑ ہوٹل کی ٹٹّی میں اور سر چارچناری میں
یکایک مجھے ایک خیال آیا اور میں نے حمدیا سے پوچھا—کون تھا؟ کون تھا وہ بیرا؟
حمدیا نے ہچکچاتے ہوئے کہا—ممّا۔
کہاں لے گیا تھا اُسے؟
اب حمدیا کے ہونٹ بھی کانپ رہے تھے۔
یہی تو ہے نہ کشمیر، جہاں کی بدصورت سے بدصورت چیز بھی ایک خوبصورت پس منظر لیے ہوتی ہے۔ تھانہ بھی ایک پہاڑی کی گود میں تھا، جہاں گلاب کی کیاریوں کے بیچ ایک چھوٹا سا راستہ بل کھاتا ہوا اوپر ہی اوپر جاتا نظر آتا تھا۔ میں اب تک اتنا ڈر چکا تھا کہ خطرے کے بیچ میں پہنچ گیا… یہ دیکھنے کہ دنگا ہوتا ہے، یا نہیں؟ انسان کا کٹا ہوا سر کیسا دکھائی دیتا ہے؟!…
انسپکٹر غلام یزدانی چھ فٹ کا ایک لچکیلا مگر مضبوط آدمی تھا۔ اُس کی ناک بہت تیکھی اور رئیسانہ تھی اور کناروں سے ایک دم سُرخ اور نمناک دکھائی دیتی تھی۔ وہ مجھے بڑے تپاک سے ملا، جس سے اس بات کی تائید ہوئی کہ ٹورسٹ لوگ کیسے بھی ہوں، خلوص سے پیش آنا ہر کشمیری اپنا فرض سمجھتا ہے
راجو کا سر ایک منقش تھالی میں رکھا تھا۔ اُس کی آنکھیں کھلی تھیں… پتھرائی ہوئی، مردہ آنکھیں، جن میں کسی چیز کا عکس نہیں پڑتا۔ سپاٹ، کالے رنگ کے چہرے کی وجہ سے آنکھوں کی سفیدی اور بھی سفید دِکھ رہی تھی۔ ڈوروں تک سے خون نچڑ چکا تھا
یہ ماں کا لال، کشمیر میں سیر کی غرض سے آیا تھا! جب گھر سے چلا ہو گا، تو اِسے کیا پتہ ہو گا؟… سنسناتے ہوئے تار اُس کے قتل کی خبر اس کے سگے سمبندھیوں تک پہنچا چکے ہوں گے… تبھی میں نے دیکھا کہ سر کو دیکھنے کے لیے جمع لوگوں میں سے ایک آدمی ڈر کر پیچھے ہٹ گیا، پھر دوسرا ہٹ گیا۔
مجھے اس کی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔ انسپکٹر غلام یزدانی مسکرا رہا تھا۔ ٹھیک ہی تھا۔ پولس والوں کے لیے یہ روز مرّہ ہے۔ اُس نے ہنستے ہوئے مقتول کا منھ میری طرف کر دیا۔ اب وہ کٹا ہوا سر مجھے گھور رہا تھا۔ مجھے اچانک یوں لگا، جیسے وہ کہہ رہا ہے —میرا قتل تم نے کیا ہے، تم نے… میں ایک دم پیچھے ہٹا اور اُس مہذب انسپکٹر کو سلام دعا کیے بنا وہاں سے بھاگ آیا۔
میں نے کافی ہاؤس میں کافی پی۔ ریڈیو اور اُس کی ڈراما یونٹ کے کچھ لوگوں سے ملا۔ کچھ جرنلسٹوں اور پروفیسروں سے بات کی۔ احدُو کے یہاں کھانا کھایا، حالاں کہ کھانا میں پہلے بھی سمفنی میں کھا چکا تھا۔
پھر میں بندھ پر ٹہلنے کے لیے نکل گیا۔ یہاں کئی رتنائیں شوخ اور بھڑکیلے کپڑے پہنے گھوم رہی تھیں۔ اُن میں سے ایک نے لال رنگ کا سوئیٹر پہن رکھا تھا۔ میں نے اُسے دیکھا اور انکار میں سر ہلا دیا… انسان کتنا ہی سر پٹخے، خون کے رنگ سے زیادہ سرخ رنگ نہیں پیدا کرسکتا۔ پھر ڈاک خانے جا کر دیکھا، میرے نام کا کوئی خط آیا ہے، یا نہیں؟…کسی کے بیٹے کا مُنڈن کا دعوت نامہ تھا۔ جوری ڈائریکٹ ہو کر یہاں پہنچ گیا۔ ایک بات میں نے دیکھی کہ میں جہاں بھی جاتا تھا، لوگ اسی قتل کی باتیں کرتے تھے اور اس کے بعد مجھے دیکھ لیتے تھے، جیسے
میں نے پہلے سے سنیؤر کارڈیرو کا ڈنر منظور نہ کیا ہوتا، تو کبھی فلائنگ جیک میں نہ جاتا، جس کے عین مین سامنے وہ ہوٹل ہے، جس میں مقتول آ کر رہا۔ راجو کا سر اور اُس کی آنکھیں میرے دماغ کی فوٹو پلیٹ پر کچھ یوں نقش ہو گئی تھیں کہ ماضی کی خوبصورت اور بدصورت یادیں اور مستقبل کی امید و بیم بھی انھیں نہ مٹا سکتی تھیں۔ اُسے حال ہی دھوسکتا تھا… کوئی اور منظر دیکھوں، کچھ اور لوگوں سے ملوں، لیکن ہر ایک منظر، ہر ایک چہرے پر وہی کٹا ہوا سر سُپراِمپوز کیا ہوا دکھائی دیتا تھا۔
سنیؤر کارڈیرو نے کچھ اور بھی مہمان بُلا رکھے تھے۔ اُن میں سے کچھ یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اور علی گڑھ سے آئے تھے، طالب علموں کو اُردو پڑھانے، کیونکہ کشمیر کی سرکاری زبان اُردو ہے، مادری چاہے کچھ بھی ہو۔ کچھ سیاسی قسم کے لوگ بھی تھے، جن میں زیادہ باہر سے آئے تھے۔ ایک ریاست کی اسمبلی کے اسپیکر کا چمچا تھا، جو اپنے طریقے سے کشمیر کا ایک چھوٹا موٹا لیڈر تھا۔ ایک تیس بتیس سال کی سلونی سی ہندو عورت تھی—مسز داس، جس کا پتہ نہ چلتا تھا کہ وہ پنجابن ہے یا بنگالن۔
یہ نہیں کہ مسٹر داس نہیں تھے۔ وہ بھی تھے۔ لیکن صرف تھے۔ مسز داس اور سنیؤریتا مل کر ایک ایسی زبان میں باتیں کر رہی تھیں جو الفاظ سے بے بہرہ ہوتی ہے۔ وہاں کا ڈرائینگ روم ہمارے سمفنی کے ڈرائینگ روم سے تھوڑا بڑا تھا۔ اور اسی میں وہسکی کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں دی جا رہی تھیں۔
سنیؤریتا نے آج ایک ساڑھی پہن رکھی تھی، جس نے اُس کے جسم کے جملہ عیوب کو ڈھک دیا تھا۔ اور اب وہ جذبہ خیز عورت نظر آتی تھی۔ ایک بات مجھے حیران کیے دے رہی تھی اور وہ یہ کہ سنیؤریتا کھانے کی کوئی چیز کسی بھی مہمان کے سامنے رکھتی، تو روسی زبان کا ایک لفظ ضرور استعمال کرتی—پشرالستہ
سنیؤریتا کارڈیرو، اور یہ پشرالستہ؟!
کیا سنیؤریتا ایک روسی عورت تھی، جو اپنے ملک سے بھاگ کر امریکہ، گواٹے مالا چلی گئی تھی؟ یا سنیؤر…؟ مگر یہ سب شخصی سوال تھے، جنھیں میں پوچھ نہیں سکتا تھا۔ البتہ ایک اور بات، جس نے مجھے حیران کر دیا، وہ یہ تھی کہ سنیؤر کشمیر کے پھول پتّوں، کیڑے مکوڑوں، مچھلیوں اور جانوروں کے بارے میں کسی بھی کشمیری سے زیادہ جانتا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ ایک گانو(کہ وہ کہاں پر بسا ہے) کے سلسلے میں چمچہ صاحب سے بحث ہو گئی۔
سنیؤر کہہ رہا تھا کہ وہ گانو اُڑی، چکوٹھی کے پاس جہلم دریا کے دائیں کنارے پر بسا ہے اور چمچہ صاحب کے مطابق بائیں پہ۔ آخر جانچ پڑتال کی گئی۔ نقشے منگوائے گئے اور پتہ چلا کہ سنیؤر کارڈیرو ٹھیک کہتا ہے۔ تب میرے دل نے مجھ سے بیسوں سوال کر ڈالے۔ کیا حاکم لوگ جانتے ہیں کہ یہ آدمی کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کشمیر کے بارے میں اتنی جانکاری رکھنے کی کیا وجہ؟ ایک اور بات۔ کارڈیرو نے نیلی پٹّی والے جنرل کو کیوں نہیں بلایا؟ کیا اس لیے کہ وہ لوگ صرف آئینے ہی کی زبان سمجھتے ہیں؟
ان لوگوں میں ایک سیدھا سادہ کشمیری بھی تھا، جو اپنے سر پر کالے رنگ کی کراکُلی ٹوپی پہنے بیٹھا تھا۔ معلوم ہوتا تھا وہ کوئی دیہاتی ہے، اتفاق سے جس کی فصل اب کے سال اچھی ہوئی ہے۔ مگر اُس کو یہاں کے اتنے پڑھے لکھے لوگوں میں بُلانے کا مطلب؟
وہ مجھ سے غلام رضا کے نام سے متعارف کرایا گیا۔ اور میں اُن کشمیریوں کے بارے میں سوچنے لگا، جو اب تک مجھ سے ملے تھے، یا جن کا نام میں نے سنا تھا —غلام ہمدانی، غلام محمد (ممّا)، غلام علی… یہاں یہ کیا خاندانِ غلاماں اکٹھّا ہو گیا تھا؟
پھروہی کٹا ہوا سر، جس کی یاد کشمیر کے سیاسی نزاع نے بھُلا دی۔ سب اِسی اطمینان کے ساتھ کہ شہر میں دنگا نہیں ہوا، کشمیر کے ماضی و مستقبل کے بارے میں لے دے کر رہے تھے۔ ایک کہہ رہا تھا کہ استصواب رائے سے کشمیر پاکستان کو جانا چاہیے۔ دوسرا برس پڑا—اس میں استصواب رائے کا سوال ہے یا دستور کا؟مسز داس نے ایک اور ہی بات شروع کر دی— کیوں چھوڑ دیں؟ ہم کشمیر کیوں چھوڑ دیں؟ کیوں بیکار جانے دیں اُن کروڑوں، اربوں کو، جو ہم نے یہاں کے ڈیفنس کے لیے خرچ کیے ہیں؟ مسز داس یوں ظاہر کر رہی تھیں، جیسے کسی نے اُن کے پرس سے پیسے نکال کر اُسے خالی کر دیا ہے۔ اُن کی یہ بات عورت ہونے کے ناتے معاف کر دی گئی
مسٹر داس، جو اپنے کوٹے سے زیادہ پی گئے تھے،  ہُنکار  اُٹھے— انجو! تم عورتیں صرف ایک ہی کام کے لیے بنی ہو…!
اس پر جب سنیؤریتا نے بھی صدمے سے چھاتی پر ہاتھ رکھ کر ’ہو‘ کہا، تو مسٹر داس نے مسکراکر اُس کی طرف دیکھا اور بولا— پیار کے لیے! پھر زیادہ پیے ہونے کی وجہ سے وہ پیار لفظ کا ہر ایک غیر ملکی زبان میں ترجمہ کرنے لگا—آمور، لیبلُو، حُبّ…!
سنیؤریتا چھاتی پر ہاتھ رکھے فرانسیسی لہجے میں کہہ رہی تھی— فیودل، مسٹر داس، ویری فیودل… اور مسزداس کا چہرہ غم و غصّے سے لال ہو رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ گھر پین ایم، پہنچ کر مسٹرداس کی خوب ہی پٹائی کرے گی۔
باتیں چل رہی تھیں—ایک کلمہ، ایک قرآن، ایک نبی… اور آپ کا سب پروپگینڈہ بیکار… کیوں نہ کشمیری لوگ ہندستان کو گالی دیں؟ وہ جان گئے ہیں نا، گالی دیں گے، تو پیسہ ملے گا… یہ سب غلطی پنڈت جی کی ہے۔ شروع ہی میں وہ جرنیلوں کے ہاتھ نہ روکتے، تو کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا…آرٹیکل 370 … پاکستان سے آئے ہوئے سبھی مہاجرین کو یہاں کشمیر میں بسا دیتے، تو … سردار پٹیل نہ ہوتے، تو ہندستان کبھی کا بلقایا گیا ہوتا
وہ تو بادشاہ ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے، شیخ صاحب
اجی ہٹاؤ، بخشی صاحب نے ڈنڈے سے حکومت کی۔ کشمیری ایک ہی زبان سمجھتا ہے اور وہ ہے ڈنڈے کی زبان۔ ایسے ہی تو نہیں تواریخ میں کشمیری کو ظلم پرست کہا گیا؟ صادق صاحب ٹھیک ہی تو کہتے ہیں—جس چیز کو دبایا جائے گا، وہ اور اُبھرے گی۔ کیوں نہ اُسے منظرِ عام پہ لا کر تحلیل کر دیا جائے؟ پھر پرتاپ سنگھ، شیاما پرساد مکھرجی، دیک فیلڈ ملکہ پُکھراج، ہری سنگھ… ہر طرح کی باتیں ہو رہی تھیں۔ خطرناک اور خطرے سے خالی، ہر ایک شخص یہ سمجھ رہا تھا کہ کشمیر کی جملہ بیماریوں کا علاج اُس کے پاس ہے۔ اُن سب میں سے صرف غلام رضا  چُپ تھا۔ جب بھی کوئی بات کرتا، تو وہ اپنا سر اُس کی طرف موڑ لیتا اور خالی خولی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگتا۔ میں نے بات شروع کی—میرا خیال ہے
تبھی غلام رضا نے اپنی نظریں میرے چہرے پر گاڑ دیں۔اور میں بھول ہی گیا، میں کیا بڑی بات کہنے جا رہا تھا؟ جیسے پروفیسر کول نے میری بات کاٹی، رضا نے اُس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ ویسے ہی خاموش، ویسے ہی جامد، ویسے ہی ساکت، غیرمعکوس انداز سے… ایک ٹھنڈا پسینہ میری پیشانی پہ دوڑ گیا۔ جی چاہا کہ اُٹھوں اور ایک دم چیخ کر کہوں —— بولو… رضا، یا ہتز! بولو، تم بھی تو کچھ بولو… ! میں نے اُس کا نام ہی لیا تھا کہ اس کی نظروں کی بے نور، مردہ اور بے رحم ٹکٹکی مجھ پر تھی۔ میں نے سنیؤر سے معافی مانگی اور نہ سنیؤرتا سے اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا——
اگلے ہی روز میں دلّی میں تھا، جہاں میری طرف کوئی نہیں دیکھتا۔

٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)