Saturday 20 May 2017

Mukti Budh " A Famous Urdu Short Sroty By Rajinder Singh Bedi


























مکتی بودھ
راجندر سنگھ بیدی

یقین  مانیے، اس میں نند لال کا ذرا بھی قصور نہ تھا۔ وہ کیا کرتا—؟ اس کی فلم اَمبِکا، چل گئی تھی۔
میں بھی حد ہوں جو ہندی فلم کے سلسلے میں منطق کی بات کرنے جا رہا ہوں! اس پر میں کہوں گا کہ جس منطق سے ہندی فلم فیل ہوتی ہے، اسی سے چل بھی جاتی۔ جیسے اسے کوئی ضد ہو جاتی ہے، چلنے یا نہ چلنے کی۔ ایسی ہی ضد میں نند لال کی پہلی دو فلمیں پٹ گئی تھیں، حالانکہ ان میں سے ایک میں ہیروئن، اسٹوڈیو کی برسات میں بھیگی بھی تھی، کپڑے اس کے بدن کے ساتھ چپکے بھی تھے۔ معلوم ہوتا تھا جیسے کپڑے ایکا ایکی کہیں نیچے چلے گئے ہیں اور بدن چھٹپٹا کے اوپر آ گیا ہے۔ بھیگنے سے پہلے کتنی مفلس اور نادار سی معلوم ہوتی تھی، لیکن جب کیا مال دار نظر آ رہی تھی وہ۔ دوسری فلم میں ہیرو نے خالی ہاتھوں، گلدانوں، صوفے کی ٹانگوں، لیمپ شیڈ شزیلیر کی زنجیروں اور جانے کن کن ہتھیاروں سے کاؤ بوائے ولین اور اس کے درجن بھر ساتھیوں کو فراش کر دیا تھا۔ کیسے وہ اُلٹے شاٹ میں اچھل کر میزنین فلور پر پہنچ جاتا تھا، جہاں ایک رسّہ ہوتا ہے۔ ہمیشہ ہوتا ہے، جس پر وہ جھولتا ہوا پھر نیچے کے دوزخ میں کود جاتا ہے۔ جبھی وِرودھی دَل میں سے کسی نے آناً فاناً اُٹھ کر پانگے سے ہیرو کا سر کاٹ دیا—جی، بالکل ہی کاٹ دیا۔ یعنی سر الگ اور دھڑ الگ۔ لوگ ہراساں ہو گئے۔ اب کیا ہو گا؟ ارے یہ تو بالکل ہی مر گیا! وہ جانتے تھے کہ فلم کا ہیرو مر ہی نہیں سکتااور پھر ہراساں بھی ہونا چاہتے تھے۔ ہیروئن کو شادی کیے بنا ہی وِدھوا کر گیا تو اس سنسار کا کیا ہو گا؟ سرشٹی کیسے چلی گی؟ مگر مانیے تو … کہاں مرا وہ ؟ جبھی دیکھنے میں کنکریٹ کی دیوار سے دیوی پرکٹ ہو گئی اور نرتیہ کے سب نیموں کا پالن کرتے ہوئے، ہیرو کے پاس چلی آئی۔ اس کے کٹے ہوئے سر کو مُدرا میں اُٹھایا۔ ایسے دھیرج سے کہ اُسے درد نہ ہو، اور پھر اسے دھڑ کے ساتھ لگا دیا۔ سر لگتے ہی ہیرو نے پہلے ایک چھینک ماری، پھر اُٹھا اور ہری بول، کہتا ہوا ایک طرف یوں چل دیا، جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ کوئی دعا نہ سلام، شکریہ نہ ڈنڈوت۔ لیکن جب ہال میں کیا تالیاں پِٹی تھیں۔ اگر فلم کے آخر میں لوگوں نے نند لال کو پیٹ ڈالا، تو اس کی وجہ اسکرین پلے کی غلطی تھی … بات یوں ہوئی کہ دیوی کے ہاتھوں سے تو وہ بچ گیا، لیکن کچھ دیر بعد باہر جا کر سمندر میں ڈوب گیا!
جب نند لال کوئی بی  اے فیل نہ تھا، جیسے اب ’امبِکا‘ کے بعد وہ پاس نہیں۔ وہ تو وہی تھا۔ فنانس بروکر، جو اپنی حاجتوں کے پیش نظر، روپیا لوٹا دیے جانے پہ بھی ہُنڈی واپس نہ کرتا۔ کہیں سال ایک کے بعد اسے پھر اپنی بھلکڑ اسامی کے سامنے پیش کر دیتا۔ مگر، ایک بات ہے، نند لال جب بھی پہلے خود ہرکسی کو نمسکار کرتا تھا جیسے آج بھی کرتا ہے، ورنہ فلموں میں یہ خلاف وضع فطری بات ہے۔ یہاں تو جو آپ کے سلام کا جواب نہ دے، سمجھو اس کی فلم چل گئی اور اگر آپ سے پہلے وِش کرے تو گھوٹالا ہوا۔
نند لال کی شکل میں کوئی خاص بات نہ تھی۔ ہماری آپ کی طرح کا آدمی تھا وہ۔ عام ہندستانی قد، وہی رنگ رو‘پ، وہی چیچک کے داغ جو بچپن میں بہت نمایاں ہوتے ہیں، لیکن جوانی میں طاقت پکڑنے میں اپنی ہی ایک داب، ایک چھاپ ہو کر رہ جاتے ہیں، بیچ میں عضلات کی سُکڑن چھوڑ جاتے ہیں۔ البتہ جس میں آدمی بات کرنے میں سر کو چھوٹے چھوٹے جھٹکے دیتا ہے، آپ اس سے اُدھار لینے جائیں تو آخر دم تک یہی لگتا ہے وہ دے گا، نہیں دے گا، دے گا، نہیں دے گا
گونپھا سے گدیوں تک آپ ہندستانی سنوں کو جمع کریں اور ان کی تعداد سے حاصل جمع کو تقسیم کریں تو جو اوسط نکلتا ہے، وہ نند لال کی شکل ہے۔ نہیں، ایسے شاید میں آپ کو سمجھا نہیں پاؤں گا۔ آپ یہاں سے ایرانی ہوٹل کُولار کی طرف چلیں تو راستے میں د و نکّڑ پڑتے ہیں۔ ان پر لڑنے والے ہر تیسرے اللّ ٹپ آدمی کی شکل نند لال کی سی ہو گی۔ اب سمجھے نا آپ؟—ٹھیک ہے کرشن کنھیا کا ایک نام نند لال بھی ہے، مگر کرشن کہاں کے گورے چِٹّے تھے؟ وہ بھی تو بھارت ورش میں اُتّر اور دکن کے میل کی ایک ناکام سی کوشش تھے۔
نند لال کو اپنے نام کے عامیانہ ہونے سے بہت چِڑ تھی۔ مگر وہ کیا کرتا؟ نام بھی تو وجود کی طرح آدمی کے ساتھ یوں چپک جاتا ہے کہ ایک ہی بار اترتا ہے۔ وہ  چِڑ دراصل پیدا کی گئی تھی۔ ایسی حرکتیں بالعموم عورتیں کرتیں ہیں، اپنے وجود کو بھول کر — فلمی لڑکیاں اسے کہتیں—کیا مہابھارت کے زمانے کا نام رکھ دیا تمھارے ماں باپ نے۔ اب اشونی کمار کو دیکھو۔ ہم اسے پیار سے اشو اشو تو پکارسکتی ہیں۔ نندو کیا اچھا لگتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے جیسے ٹھینگا ہے۔ چنانچہ نند لال نے باقاعدہ اور قانونی طور پر اپنا نام دیویندر کمار رکھ لیا، اس امید میں کہ ریحانہ اور جے شری اسے دیبو دیبو کہہ کر پکاریں گی تو کتنا اچھا لگے گا۔ اس سلسلے میں اس نے ایک پارٹی بھی کی جس میں اسکاچ چلی، کباب کارنر سے افغانی کباب اور ٹکِّے بھی آئے۔ پانچ ساڑھے پانچ ہزار کا خرچ بھی ہوا، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ہر دوسرے تیسرے اسے کوئی مِل جاتا اور کہتا—ارے نند لال، سنا ہے تو نے اپنا نام بدل لیا ہے ؟ایک دن رینُو آئی جو پارٹی کے دن آؤٹ ڈور کر رہی تھی ۔ بولی—اتنی بڑی پارٹی کر دی، نند لال جی اور ہمیں پوچھا ہی نہیں۔ بیوی کہتی—میں نے تو اسی سے شادی کی تھی، میں کوئی دوسرا نہیں جانتی۔ کوئی میم تھوڑے ہوں میں،جو آج ایک کے ساتھ ہو اور کل دوسرے کے ساتھ۔ میرا تو وہی ہے— اور پھر پاس بیٹھی ہوئی عورت نام لے دیتی— نند لال —! رول مانگنے کے لیے ایکٹر لوگ دفتر میں آتے ہی تھے، چنانچہ اُس دن بھی دیویندر کمار ایسر کا نام پڑھ کر ایک چلا آیا۔ باہر اسٹول پر بیٹھے ہوئے چپراسی نے کہا۔ ہاں، صاحب اندر ہیں۔ ایکٹر اندر جاتے ہی انھیں پانْو پر واپس چلا آیا—وہاں تو کوئی نہیں، وہی نند لال بیٹھا ہے!
نند لال کا مکان معمولی تھا اور بیوی بھی معمولی، مگر کچھ نو دولتوں کی باتیں چلی آئی تھیں اُس میں اِمبکائے جانے کے بعد۔ اس نے نئی کار خریدی، لیکن اسے بیوی کی اردل میں دے دیا اور خود اسی کھٹارے میں گھِچ گھِچ کرتا رہا۔ کیونکہ وہ لکّی تھا۔ سپیئر جوتوں کی طرح سے رہنے پر بھی نند لال بڑا مکان لینے سے ڈرتا تھا۔ اس لیے نہیں کہ کل کلاں شاید اسی میں لوٹنا پڑے، بلکہ اس لیے کہ اس کے بھاگیہ اُودے ہونے کی شری گنیش اسی لاطور بھون میں کے دو کمروں اور بالکونی سے ہوئی تھی۔ چنانچہ اسی کی دیواروں پر اس نے سخت چمکیلے، بھڑکیلے، چکو مارواڑی رنگ پوت لیے تھے۔ فِرج، ٹیلی وژن تو آج ہر اننت رام، بے انت سنگھ کے پاس ہوتے ہیں، اس لیے کہیں تو امتیازی شان پانے کی پھڑپھڑاہٹ اور بیوی کو خوش کرنے کی لالسا میں اس نے اپنے ڈبل بیڈ کے پاے چاندی سے مڑھوا لیے اور بیوی بار بار پہلو بدل کر اپنے پتی کی بے خوابی کا ساتھ دینے لگی۔ سب کچھ کتنا فراواں اور کم کم معلوم ہوتا تھا۔ ایک وہ وقت تھا جب فرش بھی عرش تھا ان کے لیے اور ایک یہ، جس میں عرش بھی سر پیٹ کر رہ گیا تھا۔ بہرحال نند لال کو جو بھی کرنا تھا، انہی دو کمروں میں اور جو نہیں کرنا تھا وہ بھی انہی میں۔
نند لال کے اِردگرد کی سب چیزیں عامیانہ بلکہ سوقیانہ ہونے کے باوجود ایک چیز بڑی اچھی تھی جو پوربلے جنم کے کسی پھل میں چلی آئی تھی، اور وہ تھی مورننگ گلوری کی بیل جو کیسی     بے خودی سے اس کے گھر کی دیواروں پر لپکی تھی۔ اس میں اسکارلٹ اوہارا کے پھول پھوٹ کر ہر آتے جاتے کے اندر لال بخار پیدا کرتے تھے۔ لوگ عام طور سے یہی سمجھتے تھے کہ اس گھر کے باسی کتنے تازہ ہیں، کتنے خوش مذاق ہیں۔ پھر ان کے جلوے میں ریاض کرتی ہوئی کسی لڑکی کی آواز مل جاتی۔
پنگھٹ پہ نند لال مجھے چھیڑ گیؤ رہے
اور سدھا، نند لال کی بیوی اُٹھ کر سب کھڑکیوں کے پٹ بند کر دیتی۔
فلمی اشتراکیت میں کوئی اکیلا نہیں کھاتا —کھا بھی نہیں سکتا۔ کسی کے امبکائے جاتے ہی سب کے کان ہو جاتے ہیں اور وہ گنگٹوک کی جونکوں کی طرح سے کچھ یوں چمٹتے ہیں کہ آدمی کو پتا ہی نہیں چلتا۔ ادھر آدمی گرتا ہے، اُدھر جونکیں گر جاتی ہیں—نند لال کا سا اصیل آدمی یہی کہتا ہوا پایا جاتا ہے—اچھا، تم میرے تاؤ کے ممیرے بیٹے ہو،اچھا؟ ہاں، ہاں، سنا تھا تمھارے بارے میں کیا کروں یار، جب سے امبکا چلی ہے، میرا فیوز ہی اُڑ گیا ہے۔ بس، دیوی ماں کی مہربانی ہے— کیا پیو گے؟ اور وہ ممیرا بھائی پینے کی بجائے کھانے بیٹھ جاتا ہے اور ہمیشہ کھاتا رہتا ہے۔
رات بیوی جب میاں کے ساتھ بھنچ کر لیٹتی ہے تو کہتی ہے—ہائے جی! تمھارے پِتا کا تو بڑا بھائی تھا ہی نہیں کوئی
ایں؟ نند لال کہتا ہے—ان کا کوئی دوست ہو گا۔ سو جاؤ، سر مت کھاؤ میرا۔
ہیرا لال پانچواں ورن ہے جو آد سے چلا آیا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ وہ منو مہاراج کی گنتی میں کیوں نہیں آیا؟ پیڑ الگ، پتے الگ تو دیمک اور ارض بھی الگ ہوتے ہیں۔
اور آج تو اس پانچویں ورن کے بنا وافر پیسے اور ’امبکا‘ کا کوئی حل ہی نہیں
جتنا آپ اس کاسہ لیس نسل کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے، اتنی ہی اس میں لچک، اتنا ہی چونچال پن اور مقاومت پیدا ہو جائے گی۔ کچھ دیر کے بعد کاکروچ اور چوہے زہر کی گولیاں ہضم کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ آج کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اسے خوشامد پسند نہیں۔ نہیں وہ خدا سے بھی بڑا ہو گیا۔ پھر آپ اگر پہلو بدلتے ہیں تو یہ ورن بھی نیا پینترا پیش کرنا جانتا ہے۔ آج کا طفیلیا کبھی بھی سیدھے سیدھے مرد کو عقل مند اور عورت کو خوبصورت نہیں کہتا۔ وہ ہمیشہ کہتا ہے—ناک کیسی بھی ہے، مگر تمھارے چہرے پر پھبتی ہے، بھابی—خوبصورتی کا یہی مطلب نہیں کہ رنگ گورا ہو— آج کل تو۔
رنڈ سالا —سارا دن اپنی زبان اور سامنے والے کے کان کی مالش کرتا رہتا ہے۔ یہ جو آدمی سُدھا اور نند لال کے پاس آیا تھا، اس کا نام ہیرا تھا۔ شاید لال بھی ہو—ہیرا لال ۔ ناصر، جوشی، پانڈے، رام نواس کے طریقے الگ تھے اور ہیرا لال کے الگ ۔ وہ فلموں میں پلے بیک سنگر ہونے آیا تھا۔ ہیرا آج کے زمانے کا آدمی تھا۔ اس کی شکل ماڈ تھی اور عقل بھی ماڈ۔ اس کے بال بے طرح لمبے تھے اور گھنے، گھناؤنے۔ انسان کے ہونے کے بجائے وہ کسی گھوڑے کے معلوم ہوتے تھے۔ مگر برل کریم کی کرشمہ سازی سے اطاعت پذیر ہو کر وہ کنڈل اور کڑیاں بن کر کاندھے اور گلے میں لٹک رہے تھے ۔ ہیرا لال جس کا مقدر پانچواں ورن تھا، یوں پہلے ورن کا آدمی تھا۔ براہمن، اس کا رنگ کھِلتا ہوا تھا اور سرخ بھی، جیسے پَلّے سے پی ہو۔ گول چہرے کو لمبی قلموں نے فلینک کر رکھا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ راج بھون ہے جس کے پھاٹک پر گارڈ ہاتھوں میں بندوقیں لیے کھڑے ہیں۔ بشرٹ عنابی، فلنیئرز سیمابی۔ ایسا تضاد ناداری کی وجہ سے ہوتا ہے اور یا پھر اس وقت جب آدمی کپڑے کی حد سے گزر جاتا ہے اور فن کے اوج کو چھو لیتا ہے۔ اس کی سپتم کا ’سا‘ کہیں گلے میں بیٹھ گیا تھا۔ جب وہ گاتا تو عورتوں میں کوئی بے نام سے جذبے پیدا ہو جاتے۔
ہیرا لال کی بھی انٹری فلم جگت میں آبائی جائیداد کو بیچ کر آنے سے ہوئی۔ اس نے بھی فلم بنائی اور خدا آپ کا بھلا کرے، مار کھائی۔ اس کے گرد بھی پانچویں ورن کے بیسیوں آدمی جمع ہو گئے اور اسے جینئس ثابت کر کے چلتے بنے۔ کتنے سانپ لوٹے ہوں گے ہیرا لال کے سینے پر جب اپنی ہی فلم میں اسے پاپولر پلے بیک سنگر کو لینا پڑا کیونکہ میوزک ڈائرکٹر نامی تھا اور اس نے ضد پکڑ لی تھی۔ یہاں کوئی کسی نئے آدمی کو آزمانے کی ہمت نہیں رکھتا، یہ جانتے ہوئے کہ کسی وقت وہ بھی تو نیا تھا اور کسی نے اسے چانس دینے کی حماقت کی تھی۔ ایک خلا اور خوف ہیں جو ہر آن فلم انڈسٹری کے اذہان کا احاطہ کیے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے بھی کسی دوسرے بڑے کے سہارے بڑے پکاتے ہیں۔
ہیرا کو غلط فہمی تھی کہ اس کی فلم اس بڑے پلے بیک سنگر کی وجہ سے پٹی۔ اس کا یہ وہم خودپرستی پر نہیں تو اور کس بات پر مبنی تھا؟ وہ یہ جاننا ہی نہ چاہتا تھا کہ فلم کی آمریت میں پلے بیک سنگر تو ایک معدنی شے ہے، پیسے کی آکسیجن بنانے کے لیے جسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اصل بات تو ہیرو ہے اور ہیروئن— اور کہیں کہیں بیچ میں ڈائرکٹر۔
رہ رہ کر ہیرا کو مکتی بودھ کی یاد آتی تھی۔ وہ ہوتے تو اس کی یہ دُرگت نہ ہوتی۔ مکتی بودھ اپنے زمانے کے ٹاپ کے میوزک ڈائرکٹر تھے۔ کبھی پورے دیس میں ان کی دھُنیں گونجی تھیں۔ لیکن جب سے چوری یاری رواج ہوئے، وہ پچھڑ گئے۔ تعیش کے اس قانون میں وہ یک زوجہ آدمی— عمر بھر ایک ہی محبوبہ کو نہارتے رہے،جو اب اُن کا منھ چڑاتی، انھیں گالی دیتی تھی اور جس کا نام تھا، سنگیتا بھارتی!
اس پر بھی مکتی بودھ اسی جوش و خروش سے خلاقی کی باتیں کرتے تھے۔ لوگ انھیں منھ پر تو کچھ نہ کہتے، لیکن کچھ دور جا کر ہنس دیتے۔ ان کی غزل تک کا بھیس اب بھی پہاڑی، تلک کامود،یا گوڑی پوربی ہوتا، حالاں کہ آج کا تقاضا تھا کہ سرشوپاں کا ہو، دھڑ ہریسن کا اور پانْو— کسی کے بھی۔
ہیرا کا بال بال قرض میں بندھ گیا تھا اور اب وہ اس منزل پر پہنچ گیا تھا، جس میں آدمی آخر بے حیائی اختیار کر لیتا ہے۔ کپڑے جھاڑ کر اُٹھتا اور تشنجی انداز میں پورے بازو پھیلا کر کہتا ہے۔ کچھ نہیں ہے میرے پاس دینے کو۔ بگاڑ لو جو بگاڑنا ہے میرا۔ سیٹھ لوگ سوچتے اب اس کا اور بگڑ ہی کیا سکتا ہے؟ حوصلے والے اس کے لیے دعا کرتے، پچیس پچاس اور بھی دے کر جاتے، تھُڑوِلے دیواروں سے سر ٹکراتے اور یا پھر کچہریوں میں دھکّے کھاتے۔
کبھی ایک ہاتھی میرے ساتھی کو ہیرا نے فلیٹ لے کر دیا تھا۔ احتیاج میں ہیرا اُسی میں اُٹھ آیا، لیکن وہاں بھی فون پر فون آنے لگے۔ یہ آلہ جو کروڑوں کا کاروبار کرتا ہے اور یا پھر عاشقوں کی چُوچُو مُومُو کی ترسیل، ہیرا کے لیے پھنیرا سانپ ہو گیا۔ آخر ایک سہانی صبح کو ہیرا کے اس پروردے نے اس کا سامان اٹھا کر سڑک پر رکھ دیا، جو سامان بھی نہ تھا۔
وہاں، راشن کی دُکان کے نکّڑ سے، جو اب ہیرا کا رین بسیرا ہو گیا تھا، ایک ہی خوبصورت چیز دکھائی دیتی تھی —نند لال کے مکان پر لپکی ہوئی بیل!
مگر جب ’امبکا‘ شروع بھی نہیں ہوئی تھی تو ہیرا نے نند لال کو آتے جاتے دیکھا تھا۔ یہ ’مبادا‘ کے انداز میں اسے نمستے کرتا تھا اور وہ ’شاید‘ کے انداز میں جواب دیتا۔ پھر پبلک لیٹرن کے نل سے دھوئے بنائے ہوئے کپڑوں میں ہیرا لال، شری روکڑا کے پاس گیا، جو بہت ہی نامی پروڈیوسر تھا۔ لیکن اس نے اپنے اس نیازمند کو دیکھنے تک کی پروا نہ کی۔ ہیرا کچھ سمجھ گیا—جب تک کوئی آدمی خود کو کسی کے لیے ناگزیر نہ بنا لے، کام چلتے ہیں بھلا؟ اس نے رگھو د لال سے دوستی دہرا لی اور ناز سینما کے پاس کافی ہاؤس میں جانے لگا۔ جہاں کسیلی کافی کی ایک پیالی اور بھُنے سڑے ہوئے کیشونٹ کے چند دانوں پہ فلم والوں کی قسمت بن یا بگڑ جاتی ہے۔ رگھو نے ہیرا کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ ہیرا آخر دم تک یہی سمجھتا رہا، رگھو وہ سب میرے لیے کر رہا ہے —مگر وہ تو روکڑا کے انگوٹھے کا نشان چاہتا تھا۔
اپنے سیٹھ سے بات کر لینے کے بعد رگھو، ہیرا کے ساتھ روکڑا کے ہاں پہنچا۔ اتنے کم سود پر کسی کو پیسا ملے تو کون چھوڑتا ہے؟ جتنا بڑا پروڈیوسر ہو، اتنا ہی سود کم لگتا ہے اور جتنا سود زیادہ ہو، اتنا ہی پروڈیوسر کم ہو جاتا ہے۔
روکڑا کو فون ہو چکا تھا۔ جب ہیرا اور رگھو، بلکہ رگھو اور ہیرا اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے خود آ کر دروازے پر اس جوڑی کو رِسیو کیا۔ اپنے فلمی سیٹ کے سے آفس میں چیک ٹی سیٹ میں انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے چائے بنائی اور پلائی۔ باتوں میں جب روکڑا صاحب نے کہا—ہاں، ہاں، میں ہیرا لال جی کو بڑی اچھی طرح سے جانتا ہوں، تو دونوں ہیرا لال اور رگھو نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ہیرا نے ناز سے، رگھو نے نیاز سے۔ پھر انگوٹھے کا نشان یعنی دستخط وغیرہ ہوئے، رقم اس جیب سے اُس جیب میں گئی اور دونوں خوش خوش لوٹے۔ کچھ ہی دِنوں میں ہیرا لال کو پتا چل گیا
ہیرا لال نے دیکھا اس کی اصل جگہ وہی ہے، جہاں روکڑا صاحب کا چپراسی بیٹھتا ہے۔ باہر وہی دروازے پر کی سُرخ بتی صاحب کے مصروف ہونے کی نشاندہی کر رہی تھی۔ ہیرا باہر بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ صاحب مصروف بھی رہے گا تو کتنا — دو گھنٹہ، چار —پانچ—اسے خبر نہ تھی، گھنٹے دن میں بدل سکتے ہیں اور دن مہینوں میں۔
بیچ میں رگھو نے ہیرا کو اس عالم میں دیکھا بھی اور کہا —تُو تو کہتا تھا روکڑا تیرا بڑا یار ہے، یار؟ وہ تو میں اب بھی یہی کہتا ہوں— ہیرا لال نے گھبرا کر جواب دیا، آخر انسان ہے، اس سے کبھی مصروفیت ہو ہی جاتی ہے
ہے بھگوان —مجھے آخر چاہیے کیا تھا— یہی نا، ایک پلے بیک، روکڑا کے پاس!
یہ ایسے ہی تھا، جیسے کوئی مفلس اوپر دیکھ کر کہتا ہے— اللہ! میں تجھ سے آخر مانگتا ہی کیا ہوں، یہی دو روٹیاں نا؟
ہیرا کی فریاد اس مفلس کی فریاد سے بھی زیادہ اندوہگیں تھی۔ غریب، خدا کے ساتھ جُوا کھیلتا بھی ہے، تو اسٹیک کیا ہوتا ہے اس کا —یہی دس پیسے نا—؟
روکڑا دوسرے کروڑ کی فکر میں ہے۔ میں ابھی پہلے کروڑ کی—اور ہنسی، جو رونا بھی نہ تھی۔
پیسا اس کے پاس آتا ہے، جس کے پاس پیسا ہو۔ اس لیے ہیرا بھیک مانگ کر بھی کچھ پیسے جیب میں ڈال لیتا تھا، سوگند لے کر کہ وہ اس گداگری کو پیشے کے طور پر کبھی اختیار نہیں  کرے گا۔
کام اس کے پاس آتا ہے، جس کے پاس پہلے ہی کام ہو۔ اس لیے ہیرا صریحاً جھوٹ بولتا تھا—پانچ پکچروں میں پلے بیک دے رہا ہوں میں۔ کوئی شروع نہیں ہوئی، کوئی ہو رہی ہے۔ گویا اس نے تین روپے کمائے، جن میں دو کھوٹے تھے اور ایک چل نہیں رہا تھا۔ جو چل نہیں رہا تھا، اسے تین صرّافوں کو دکھایا، جن میں سے دو اندھے تھے اور ایک کو دکھائی نہیں دے رہا تھا، وغیرہ ……
بیچ میں ہیرا کی مکتی بودھ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ کہ ان کی حالت اور بھی خستہ ہو گئی ہے۔ ہیرا لال کو ان کی باتوں سے پتا چلا —برپشم قلندر! جسے میرے پاس آنا ہے آئے، نہیں آنا نہ آئے۔ میں نا گیا کسی کے پاس۔ غضب خدا کا، یہ گھمسان کا میوزک دینے کے بعد بھی اگر لوگ مجھے بھول گئے ہیں تو بھول جائیں۔ اور پھر، یہ ہو کیا رہا ہے دنیا میں۔ جھوٹ کا مول ہے، سچ انمول ہو کر رہ گیا ہے!
مکتی بودھ کو چاہیے تھا گھر سے باہر نکلتے،تاکہ اسے دیکھ کر ہی کسی کو تو بھولے بسرے یاد آ جائے اور کچھ نہیں تو کھلی ہوا سے پھیپھڑے ہی صاف ہو جائیں۔
ایک بار وہ نکلے بھی —اور تو اور اسی سنگیتا بھارتی نے کُوڑے کی ٹوکری ان کے سر پہ خالی کر دی!
پیسے کو عورت چاہیے، تو عورت کو بھی تو پیسا چاہیے!
اس کے بعد مکتی بودھ اندر ہی اندر، اور اندر اپنے آپ میں سمٹ گئے، جہاں انھیں اپنے ہی لہو کا سنگیت سنائی دینے لگا۔
ہیرا لال ان کے پاس بیٹھا تھا، جب مکتی بودھ نے اپنے مستک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا—جو یہاں لکھا ہے، ہیرا، وہ مل کر رہے گا۔
ہیرا لال نے مکتی بودھ کے ماتھے کی طرف دیکھا، جہاں چند بے ربط لکیروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ بائیں طرف ایک گھنڈی سی بنی تھی۔ شاید اسی نے قسمت کے بہاؤ کو روک لیا تھا۔ جبھی کُنڈلی دیکھنے والے پنڈت، مکتی بودھ کے پاس سے اُٹھ کر چلے گئے۔ جیسے اُن کا بھی سہارا چلے جانے پر اُنھوں نے جھلّا کر ہاتھ ہارمونیم پر مارا اور تھوڑی آ آ آ کے بعد ایک غزل شروع کر دی، جو پیلو میں باندھی گئی تھی۔
کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
خشوع و خضوع کے آنسو مکتی بودھ کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے، جس نے ہیرا کے بھی بندھ کھول دیے۔یہ وہ دن تھے جب نند لال کی ’امبکا‘ ہٹ ہو گئی تھی۔ ہیرا نے جلد سے اپنے آنسو پونچھے— آئیڈیا!
نند لال بُری طرح سے پانچویں ورن میں گھِرا ہوا تھا، جب کہ ہیرا لال بڑی خامشی سے آ کر نیاز مندانہ ایک طرف بیٹھ گیا۔ صاحب سلامت تو ہو ہی چکی تھی، مگر نند لال اسے آگے بڑھنے دینا نہ چاہتا تھا۔ وہ پہلے ہی گجُو، ڈانڈیکر، فیروز اور ان کی قبیل کے لوگوں سے گھبرایا ہوا تھا۔ جیسے ہر امیر آدمی کی بیماری میں ملاقاتی ڈاکٹر، حکیم اور وید بن جاتے ہیں، ایسے ہی سب لوگ اسے آیندہ کے لیے مشورے دے رہے تھے۔ اگر ناکامی میں نند لال کچھ سوچ بھی سکتا تھا، تو اب کامیابی میں وہ بالکل کنفیوز ہو گیا۔
نند لال جب دوسروں سے باتیں کر رہا تھا تو ہیرا لال اپنی کمین گاہ سے نظر یں اس پر فوکس کرنے لگا، جیسے وہ کسی مسمریزم، تانترک ودّیا کے گُر جاننے لگا ہو۔ احتیاج آدمی کو کیا کچھ نہیں سکھا دیتی؟
اُچٹ کر نند لال کی نظر جو ہیرا پر پڑی تو وہ اپنی نگاہیں ہٹا ہی نہ سکا۔ جیسے اس نو وارد میں کوئی خاص بات ہو۔
کیا حال ہے؟—نند لال نے تکلفاً پوچھ ہی لیا۔
اپنی جگہ پر کسمساتے ہوئے ہیرا نے وہیں سے ڈوری پکڑ لی— بس کِرپا ہے امباجی کی۔
نند لال چونک گیا۔ اُسے یوں لگا جیسے امبا ماں نے خاص طور پر اسے اس کے ہاں بھیجا ہے۔ امبا ماں، جس نے چھ لاکھ کے خرچ پر کروڑ لوٹائے۔ پھر وہ ڈر گیا—کہیں یہ بھی تو وہ نہیں ہے؟!
مہینہ بھر ہیرا نے اپنا عندیہ نند لال سے چھپائے رکھا، جس سے نند لال میں ایک عجیب نفسیاتی اُلجھن پیدا ہو گئی۔ وہ اب تک لوگوں کی فرمایش اور اپنے انکار کا عادی ہو چکا تھا۔ ہیرا نے کام بھی پکڑا تو نند لال کے نئے دفتر کا۔ وہ پائی پائی پر انٹیریر ڈیکوریٹر سے لڑتا۔ پچیس ہزار کے خرچ پر نند لال اُسے پانچ ہزار ایڈوانس دینا چاہتا تھا، لیکن ہیرا لال نے اس کے ہاتھ روک لیے اور اُسے پانچ سو میں نپٹا لیا۔ کچھ دن کے بعد پھر اسے ایک ہزار دے دیا—آخر سامان تو ہمیں ہی دینا ہے، اسے تو سب اپنے دماغ ہی سے نکالنا ہے نا۔ وہی دلیل جس کی وجہ سے کوئی فن کار اپنے پیشے سے روٹیاں نہیں نکال سکا۔ لیکھک کو ساتھ میں پیاز کی دُکان ضرور کھولنی چاہیے۔
اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ جو آدمی پیسے کے لیے لٹکایا جاتا ہے، زیادہ تندہی سے کام کرتا ہے۔ پھر ہیرا نے سُدھا بھابی سے پوجا کا معاملہ طے کیا۔ نند لال سُدھا کو ہمیشہ اِگنور کیا کرتا تھا۔ لیکن اب یہ ہیرا ہی کی وجہ سے تھا کہ سُدھا کو دفتر کے مہورت پر مُکھ رکھا گیا۔ پوجا میں تو وہ تھی ہی تھی، لیکن دوسری باتوں میں بھی سب سے آگے۔ اصل میں وہی دیوی تھی جس کے پانْو کی خیرات سے نند لال بنا۔ سینکڑوں لوگ نند لال کے لیے نہیں، ’امبکا‘ کی کامیابی کی خاطر آتے تھے۔ وہ پہلے سُدھا کو نمسکار کرتے تھے، جس سے اسے اپنا وجود ضروری، خوبصورت اور امبکا معلوم ہونے لگا تھا۔
ہیرا نے اس قدر خوبصورت طریقے سے نند لال کو گرگوں سے بچایا تو نند لال کے دل میں اس کے لیے عزت بڑھ گئی۔ پھر آیا وہ آئیڈیا کا دن!
دن ابھی شام میں ڈھل نہ پایا تھا کہ نند لال ہی کے گھر میں ہیرا نے عشاء کی نماز کی تیاری شروع کر دی۔ اس وقت وہ وضو کر رہا تھا، جب کہ نند لال چونکا—تم مسلمان ہو؟
نہیں تو
توپھر—یہ؟
میں سیکھ رہا ہوں، نماز کیسے پڑھی جاتی ہے؟
وہ کس لیے؟
میں ایک مسلم سبجیکٹ بنا رہا ہوں، نند لال جی—ہیرا نے کچھ رُکتے ہوئے کہا—در اصل میں اس کا ٹائیٹل اِمپا میں رجسٹرڈ کروا آیا ہوں اور اس نے جیب میں سے رسید نکالی۔ واقعی ٹائیٹل ہیرا لال پنڈت کے نام رجسٹرڈ تھا، اور وہ تھا—سجدہ!
ارے!—ہیرا نے ایک دم کہا، جیسے کوئی بھولی ہوئی بات ایک دم اُسے یاد آ گئی اور جو پہلے ہی کوندے کی طرح سے لپک کر نند لال کے دماغ میں آ چکی تھی اور اسی لیے منطبق ہو گئی—یہ فلم آپ کو بنانی چاہیے۔ آپ جو کسی بات کا فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں، آج ہو گیا—فیصلہ ! بات یہ ہے ’امبکا‘ بنانے کے بعد آپ نے پوری ہندو قوم کو رام کر لیا ہے۔ ’سجدہ‘ سے پوری مسلمان قوم کو رحیم کرسکتے ہیں۔
ہیرا لال
جی، نند لال جی؟
ٹائیٹل
ٹائیٹل میرے نام ہے تو کیا ہوا؟ —آپ کے لیے تو میری جان بھی حاضر ہے۔
نہیں، میں سوچ رہا تھا—ٹائیٹل بہت دھانسو ہے۔
جب ہی ہیرا لال کو پتا چل گیا کہ وہ نشانے سے تھوڑا آگے ہی نکل گیا ہے۔ چنانچہ اس نے باتوں میں اُلجھائے رکھنے کی بات سوچی۔ یوں بھی دن بھر اِدھر اُدھر جھک مارنے سے نند لال کی مدافعت کی سب قوتیں ختم ہو چکی تھیں۔ پھر اُس وقت وہاں کوئی دوسرا تھا بھی نہیں۔ سُدھا بھابی جی کے ساتھ سازش کر کے اُس نے آنے جانے والوں کے تانتے کو بکھیر دیا تھا۔ اس وقت وہ نند لال اور اس کے خدا یا دیوی کے بیچ ’اکیلے‘ تھے— ہیرا کہے جا رہا تھا،مسلمانوں کے اُٹھنے بیٹھنے، ان کے کلچروں میں وہ بات ہے جو ہندوؤں کو بھی بہت پسند آتی ہے— دیکھو نا، بیٹی کیسے باپ کو آداب کہتی ہے اور ساتھ میں ابّا حضور بھی۔ سامنے آ کر بھی کتنا خوبصورت پر دہ ہے، جو آج کے  ننگے پن میں کہاں ہے؟
میں سمجھ گیا۔
نہیں، آپ نہیں سمجھے— مسلمان جو بھاشا استعمال کرتے ہیں، وہ کتنی سندر ہے۔ شکیلہ بانو بھوپالی جب قوالی کرتی ہیں تو گجراتی ہندو بھی پاگلوں کی طرح سے داد دیتے ہیں، چاہے ایک لفظ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔
اُس کی بات چھوڑو—وہ سب سمجھا دیتی ہے۔
اس پر نند لال اور ہیرا دونوں مل کر ہنسے۔ انھوں نے دیکھا کہ سُدھا ہی کبارڈ کے پیچھے کھڑی ہنس رہی ہے!
پھر مشاعرے پر بات چلی آئی، جس کے سامنے کوی سمیلن کا رنگ نہیں جمتا۔
تو—’امبکا‘ کے بعد ’سجدہ‘ —بیچ میں نعت، قوالی، مشاعرہ، کوٹھا، غزلیں، چوڑی دار مقیش لگے، لہراتے ہوئے دوپٹّے اور آخر — پیسا!
بات ہو چکی تھی، مگر نند لال کا قدرتی حربہ آڑے آ رہا تھا، یعنی کہ سر کے جھٹکے۔ کبھی لگتا تھا فلم بنے گی، کبھی نہیں بنے گی، بنے گی، نہیں بنے گی
میوزک ڈائرکٹر کے طور پر مکتی بودھ جی کا نام تجویز ہوا تھا، اس لیے کہ وہی ایک ایسے آدمی تھے، جو ہیرا لال کے پلے بیک سنگر بننے کے خواب پورے کرسکتے تھے۔ ہیرا نے نند لال کے سامنے اپنی بات ہی نہ کی، کیونکہ اندر سے وہ جانتا تھا کہ مکتی بودھ آ جائیں گے تووہ خود بھی آ جائے گا۔ اس کا چانس سینٹ پَر سینٹ ہے۔ نند لال کا اعتراض تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکتی بودھ ایسا سنگیت کار انڈیا نے ابھی تک پیدا نہیں کیا، لیکن آج کل وہ بِکتے نہیں۔ دوسرا،ہندو ہونے کے ناطے وہ نعت کیسے بنائیں گے؟ پلے بیک سنگر بھی چوٹی کا ہونا چاہیے کیونکہ اردو بھاشا میں ’ک‘ دو طرح کے ہوتے ہیں، جن میں سے ایک گلے سے نکلتا ہے اور دوسرا — دوسرا نامعلوم کہاں سے؟ ایسے ہی ’سا‘ آ —عرق عشبہ کو ٹھیک سے بولیں تو اَتار (عطار) کا لڑکا کہے گا—ہے تو میرے پاس، پر اتنا گاڑھا نہیں ہے —اور ہیرا کانپ گیا۔
لیکن جیسے تیسے اتنے بڑے آدمی کو، جس کی ’امبکا‘ ہِٹ ہو گئی تھی، مکتی بودھ کے گھر لے ہی آیا۔ نند لال نے بڑی عقیدت سے ان کے چرن چھُوئے۔ مکتی بودھ جی نے وہسکی اور دوسرے لوازمات کا بندوبست کر رکھا تھا۔ جتنی دیر یہ سب لوگ پیتے پلاتے، پیتے کھاتے رہے، مکتی بودھ مسلم کلچر ہی کی باتیں کرتے رہے۔ آخر طے ہوا کہ گورو وار کے روز ان سے کانٹریکٹ کریں گے کیونکہ وہی دن دیوی ماں کا ہے۔ نند لال نے جاتے ہوئے بھی اتنے بڑے میسٹرو کے پانْو پر سر رکھا اور مکتی جی کو یقین ہو گیا کہ اس دن اُن کا کانٹریکٹ ہو ہی جائے گا۔ دونوں لال چلے گئے، پیچھے وہی دو ٹوٹرو رہ گئے، لیکن آج اُس بُڑھیا سنگیتا نے اپنے بڈھے کے لیے گاجر کا حلوہ بنایا تھا۔
فلمی دنیا میں ہر خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ جہاں اتنے بڑے پروڈیوسر کی تصویر میں میوزک دینے کے لیے لوگ مکتی بودھ کے پاس آنے لگے، وہاں قرض خواہ بھی جو مایوس ہو چکے تھے ۔ مکتی بودھ سب کو کہنے لگے— آپ گورووار کے روز آ جائیے اور اپنا حساب لے جائیے —اور پھر …نہیں نہیں، گورووار نہیں۔ میرا خیال ہے اگلے منگل ۔ بات یہ ہے نند لال چیک میں پیسے دے گا۔وہ سنیچر کو بینک میں پڑیں گے اور آپ جانتے ہیں، اس دن کوئی کلیرنس نہیں ہوتی۔ سوموار کو چیک جائے گا اور منگل کی شام کو میرے بینک میں آئے گا۔ اس لیے بدھ ہی کو آئیں تو اچھا ہے۔ مکتی بودھ حیران ہوئے کہ کسی کو ان کی یہ بات بُری نہیں لگی۔
رات جب مکتی بودھ سونے لگے تو ایک عجیب سی شکر گزاری کا جذبہ ان پر رینگنے لگا—آخر بھگوان نے سن لی میری۔ دینا ناتھ شاستری، جیوتش آچاریہ تو کہتے بھی تھے کہ بس آپ کے ایسے دن آنے والے ہیں کہ آپ پہلے کے شِکھر سے بھی اوپر پہنچیں گے۔ ایک نہیں شاید آپ کو پانچ چھے کانٹریکٹ بھی ملیں۔ ہو سکتا ہے راج دربار کی طرف سے مان بھی پراپت ہو۔ بس جب آپ کے چاند پر سے منگل گزر جائے گا تو پتنی کی طرف سے بھی چِنتا نہ رہے گی۔ اور گورُو کے مارگی ہوتے ہی لکشمی آپ کے گھر ڈیرا ڈال لے گی۔ پھر انھیں بیوی کا خیال آیا۔ وہ ہنسے — ایک گھر میں دو عورتیں کیسے رہ سکتی ہی؟!
سِٹی سول کورٹ سے ایک ٹانچ بھی مکتی بودھ جی کے ہاں کی سب چیزوں پہ لگی تھی۔ جب لال برادران وہاں تھے، تو بُڑھیا نے کس صفائی سے سب چیزوں پر لگی ہوئی ٹانچ کی چیپیاں چھپا دی تھیں ۔کسی پر میز پوش ڈال دیا تھا، کسی پر چادر۔ اگلے ہی روز بیلف وغیرہ کو کچھ دے دلا کر مکتی بودھ جی نے سامان پر قبضہ اور نیلامی کی تاریخ اگلے ہفتے تک ملتوی کروالی تھی۔
گورووار کے دن بھی نند لال ہی کو مکتی بودھ جی کے ہاں آنا تھا۔ پانچ بجے شام کا وقت تھا۔ جب چھے ساڑھے چھے ہوئے، تو ہیرا کی شکل دکھائی دی۔ اس نے بتایا کہ نند لال کو لیبارٹری میں ’امبکا‘ کے نئے پرنٹ بنوانا تھے، اس لیے دیر ہو گئی۔ بات یہ ہے، کہ اس فلم ’امبکا‘ کے ڈیڑھ سو پرنٹ بنوائے اور نیگیٹو گھِس گیا۔ اس لیے ہم ایک پرنٹ سے ڈیوپ نکال کر اس سے کاپیاں بنوائیں گے۔ ڈیولپ سے جو پرنٹ نکلا ہے،  انکل، اس کے مقابلے میں پہلا پرنٹ بھی کچھ نہیں۔ آپ میری خاطر اس کوتاہی کو بھول جائیے۔ آپ میری مدد تو کر ہی رہے ہیں، تھوڑی اور کر دیجیے اور وہ یہ کہ آپ نند لال جی کے گھر ہی چلے چلیں——آنا کانی کا کوئی بہانہ ہی نہ رہے۔ دیکھیے آپ کی عزت میری عزت ہے، اور میری عزت تو کچھ ہے ہی نہیں۔ آخر وہ اتنا بڑا اور کامیاب پروڈیوسر ہو کر آپ کے گھر آیا ہی تھا نا —آپ کے چرن بھی چھوئے ہی تھے نا۔
مکتی بودھ جی شاید کچھ سوچتے مگر بڑھیا نے انھیں کوئی موقع ہی نہ دیا۔ تسلا،جس میں چاول رکھتے تھے، اِسے خالی دکھا دیا۔ مکتی بودھ اُٹھے اور ہیرا کے ساتھ چل دیے۔ جب ہیرا کہہ رہا تھا، میرے پلے بیک کی بات ابھی نہیں، بعد میں کیجیے گا، جب آپ کا کانٹریکٹ ہو جائے۔
لاطور بھون میں نند لال کی بیوی سُدھا نے ان کی خاطر وغیرہ کی۔ دس بجے تک زندگی کے یہ دو کنارے آپس میں اِدھر اُدھر کی ہانکتے رہے۔ پھر گیارہ بج گئے، بارہ اور خون مکتی بودھ کے سر کو آنے لگا۔ میں نے غلط کیا۔ چلو کوئی بات نہیں۔ کبھی ایک جھوٹ میں سے دس سچ بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مگر—نند لال آخر انسان ہے اور انسان سے مصروفیت ہوہی جاتی ہے۔ نند لال کو اب لے ہی آؤ، پرماتما، نہیں موت کا  بیلف کیسے ٹلے گا؟
نند لال اپنی اسی گھِچ گھِچ کرتی مگر لکّی گاڑی میں اُس وقت، یعنی کہ رات کے ایک بجے آیا جب کہ مکتی بودھ ایسی تیسی کہہ کر چلنے ہی والے تھے۔ نند لال لنگڑا رہا تھا۔ پتا چلا اچانک پیچش ہو جانے سے اسے ڈاکٹر کے پاس جا کر سرین کے اوپر ٹیکے لگوانے پڑے جو ابھی درد کر رہے تھے۔ شکروار دیوی ماں کا دن ہے، نند لال نے بتایا، اور اس روز وہ برت رکھتے ہیں۔ صبح سے کچھ کھایا ہی نہیں۔ مکتی بودھ نے کہا —پہلے کھاؤ، پھر بات کریں گے۔ آخر انسان اتنی دوڑ دھوپ کرتا کس لیے ہے؟ بہُو! چاول میں دہی زیادہ دینا ذرا، اور مکتی بودھ نے کسی اضطرار میں اپنا ہاتھ پیٹ پر رکھ لیا اور اسے سہلانے لگے۔
ہیرا اور مکتی بودھ ٹیرس پر بیٹھے تھے، جہاں ان پر اُوس پڑ رہی تھی۔ یہاں اُوس پڑ رہی ہے، انکل! ہیرا لال نے کہا، اندر نہ چلے جائیں؟
مکتی بودھ بولے—نہیں بیٹا،اس کا تو کچھ نہیں، وہ ہماری امیدوں پر نہ پڑے، بس—اور پھر وہ کھسیانہ سی ہنسی ہنس دیے۔
سب کچھ ہو جانے کے بعد نند لال آیا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر مکتی بودھ سے معافی مانگی، اس لیے نہیں کہ وہ لیٹ ہو گیا تھا، بلکہ پیسے لیٹ ہو گئے تھے، ابھی تک تو بندوبست نہیں ہوا مگر بدھ تک ضرور ہو جائے گا۔
جانے مکتی بودھ جی نے کیسے کہہ دیا—کوئی بات نہیں، بیٹا!بدھ کون سا دور ہے؟ حالاں کہ ان کے دماغ میں دلال، سیٹھیے، بیلف کیا کچھ گھومنے لگا تھا، اور ان سے زیادہ اپنی بڑھیا جو گھوم ہی نہیں رہی تھی۔
باقی ذمے داری ہیرا کی تھی کہ وہ بڑھؤ کو سمجھا دے کہ پیسا کوئی آسانی سے ڈھیلا نہیں کرتا۔ ’امبکا‘ میں کروڑ کا بزنس ٹھیک ہے، لیکن وصولی بھی تو کوئی چیز ہے؟ پچیس ہزار تو دفتر کی انٹیریر ڈیکوریشن میں لگ گیا ہے۔ ارے صاحب، ڈسٹری بیوٹر اور پیسا دیں؟ کیا کیا جھوٹے وَؤچر اور حساب نہیں بناتے؟ شہر شہر گانُو گانُو جا کر چیکنگ کرنی پڑتی ہے۔ اس کے لیے ایجنٹ رکھیں تو اسے پانچ سو ہزار سے کیا کم دیں گے؟ اگر ڈسٹری بیوٹر اس کی جیب میں پانچ ہزار ڈال دے، ساتھ شراب پِلائے اور کوٹھے پر گانا سننے کے لیے لے جائے، تو بتائیے وہ ایجنٹ آپ کا ہوا یا ڈسٹری بیوٹر کا؟ ایمان داری نام کی یہاں کوئی چیز ہی نہیں۔ ایک ہی ایمان دار ایجنٹ ملا تھا، چیکنگ کے ایک ہفتے کے اندر جس کی لاش ٹائلیٹ سے ملی—!
خیر، ہیرا کیسا بھی تھا،مگر تھا تو مکتی بودھ جی ہی کا بہی خواہ۔ ساتھ نند لال کا بھی۔ حالاں کہ یہ سب جھوٹ ہے— اصل میں وہ اپنا ہی خیرخواہ تھا۔
لاطور بھون کے ٹیرس سے اُٹھ کر چلتے ہوئے مکتی بودھ جی نے صرف اتنا ہی کہا—یہ کاہے کی بیل ہے؟
مارننگ گلوری کی—نند لال نے جواب دیا۔
مکتی بودھ جی نے اپنی نظریں بچاتے ہوئے کہا—تو پھر ایوننگ گلوری کی بھی کوئی ہو گی؟— اور پھر وہ ہنس دیے، چل ڈیے۔
ہیرا میں باقی تو سب ٹھیک تھا، لیکن ایک بات غلط تھی۔ اس نے مکتی بودھ جی کی پوری رقم اور سائیننگ اماؤنٹ بھی خود ہی طے کر دی تھی۔ جیسے وہ، مکتی جی، کوئی بات ہی نہیں— ظالم! پوچھ تو لیا ہوتا؟ فلم میں جو آتا ہے، رشتے جگا لیتا ہے۔ ارے بھائی، ہمیں اپنا بیٹا نہیں بیاہنا ہے۔ یہ کمرشل دنیا ہے، اس ہاتھ سے کام لو، اُس ہاتھ سے دام دو اور بس—اس سے پہلے یہ بکواس کبھی نہ ہوئی تھی۔ ہوئی بھی تو ہم نے کانٹریکٹ پھاڑ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیے۔ اور اب، وہ جگر اب میں کہاں سے لاؤں؟ —یہ ہیرا؟ کہتا ہے میں نے نند لال کو کہہ بھی دیا کہ انکل کا تو کچھ نہیں، وہ درویش آدمی—ارے درویش کو کیا حاجت نہیں ہوتی؟ پھر — فلمی دنیا گروپ سے چلتی ہے۔ آپ ایک بار اس گروپ میں گھس تو جائیے، انکل! ’امبکا‘ گروپ—آج کے سب سے بڑے اور کامیاب پروڈیوسر نند لال کا گروپ—ارے، بڑے نند لال آئے اور بڑے گئے—اس کے ذریعے آپ کو دس تصویریں ملیں گی۔ ارے۔ تیے، مجھے اسی ایک کی ضرورت ہے، بعد کی دس اور بیس کی نہیں — کبھی میرا بھی وقت تھا، جب تمھارے ایسے آدمی کو ہفتہ ہفتہ باہر بٹھائے رکھتا تھا۔ کہیں غلطی سے وہ اپنا تھوبڑا میرے کمرے میں لے تو آئے،میں چِلاّ کر کہتا تھا— گیٹ آؤٹ۔ گیٹ ۔ آؤٹ۔
اور اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے مکتی بودھ سچ مچ چلّا اُٹھے—— گیٹ آؤٹ……
بُڑھیا بڑبڑا کے اُٹھی— کیا ہوا؟
مکتی بودھ کی سانس دھونکنی کی طرح سے چل رہی تہی—وہ ماتھے پر سے انفعال کے قطرے پونچھ رہے تھے۔
وہی ہو رہا ہے، جو تیرے ایسے کھوسٹ کا ہونا تھا— بڑھیا نے کہا اور واپس اپنے بوڑھے بستر پر لیٹ گئی۔
جس دلیری سے تقاضا کرنے والوں کو مکتی بودھ جی نے بدھ کا وقت دیا تھا، اسی بے حیائی سے اگلے سنیچر کا دے دیا (چیک بدھ کو بینک میں پڑے گا، تو… وغیرہ) حیرانی کی بات یہ کہ بیسیوں ہی آئے مگر ٹالے جانے پر کسی نے اُف بھی نہ کی۔ کیا ارادے تھے ان کے؟وہ شور مچاتے، نالش کی دھمکی دیتے، مگر یہ چُپ ؟! رام جانے یہ سب مل کر کیا کرنے والے ہیں؟ مکتی بودھ کانپ رہے تھے۔
بدھ کے روز موعودہ وقت پر ہیرا نند لال کی پتنی سُدھا کے ساتھ چلا آیا۔ سُدھا کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبّہ تھا جو اس نے مکتی بودھ جی کے آگے رکھ دیا— منھ میٹھا کیجیے، انکل!
مکتی بودھ اور ان کی بُڑھیا نے ڈبّہ لے لیا اور انتظار کرنے لگے۔
ہیرا بولا—میں آپ کے گھر میں ان لکشمی کو لے آیا ہوں— اور اس نے سُدھا بھابی کی طرف اشارہ کیا—سُدھا بھابی سے بڑی لکشمی کیا ہو گی؟ بات یہ ہوئی کہ نند لال اووَرفلو لینے کے لیے کلکتہ چلے گئے ہیں۔ ہفتہ بھر میں لوٹ آئیں گے۔ جاتے سمے اُنھوں نے تاکید کی کہ مکتی بودھ جی کو میرا اچانک چل دینا برا نہ لگے، اس لیے تم میری بیوی کو لے جانا اور ساتھ برج واسی کے ہاں سے رس ملائی کا ایک ڈبّہ بھی— اپنی عورت سے بڑی آدمی کی عزت کیا ہوتی ہے؟ مکتی بودھ جی نے سر ہلایا اور بولے —ہوں، اور ایک نظر اپنی بڑھیا کی طرف دیکھا—ان میں پُرانے ج لال کے دن پھڑپھڑاکر رہ گئے
اِدھر ہیرا اور سُدھا گئے، اُدھر ٹانچ والے گھر سے ریڈیو گرام، اسپیکر، ٹیپ ریکارڈ، ہارمونیم، سِتار، فرنیچر اور کچھ برتن اُٹھا کر لے گئے— اس کا کیا ہے، مکتی بودھ جی نے سوچا، دس دن میں پیسے آ جائیں گے تو چیزیں بھی لوٹ آئیں گی، جب تک انھوں نے نیلام نہ کر دی ہوں تو — کربھی دی ہوں تو نئی خریدیں گے—آخر ایک آدمی نے اپنی عورت، اپنی عزت میرے گھر بھیجی ہے۔ اس سے بڑی بات اور کیا ہو گی؟ یہ کوئی آزمایش ہو رہی ہے۔ ہو سکتا ہے دس دن میں نند لال کلکتہ سے لوٹ ہی آئے۔
جب ٹانچ والوں نے گھر کی چیزوں پر ہاتھ ڈالا تو مکتی بودھ کی بُڑھیا نے ایک دلدوز چیخ ماری اور اس کے بعد بے ہوش ہو گئی۔ یہ اچھا ہی ہوا، اگر وہ ہوش میں ہوتی تو دوسروں کے ہوش ٹھکانے کر دیتی۔ وہ  مغلظّات سناتی کہ بس۔
دس دن بیت گئے لیکن نند لال کلکتہ سے نہ لوٹا۔ اب ہیرا مکتی بودھ جی سے بچتا پھر رہا تھا— نند لال کا ہاتھ روکنے اور مکتی بودھ کو پیسا دلوانے کے بیچ میں وہ کہیں بٹ کر رہ گیا تھا۔ اسے اپنا آدرش دور ہٹتا، خود میں کہیں گُم ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ نند لال کہیں اس سے بھی کھیل تو نہیں کر گیا؟ نہیں وہ ایسا آدمی تو نہیں ہے۔ ہیرا نے ایک بار مکتی بودھ کو مل کر بتایا کہ اوورفلو جھگڑے میں پڑ گیا ہے۔ اسی لیے نند لال نہیں آیا، مگر آئے گا ضرور، کچھ دن میں۔ کہاں جائے گا؟
مکتی بودھ جی ہیرا کی بات پر ہونٹ بھینچ کر صرف ایک ہی کہتے رہے۔ ہُوں! لیکن جب ہیرا چلا جاتا تو اپنے آپ سے کہتے —مکتی! تجھے کیا ہو گیا ہے، کیوں نہیں تو ان پِلّوں کو ٹھڈے مارکر باہر نکال سکتا؟ اب رہ ہی کیا گیا ہے—؟
اسی سلسلے میں ایک دن مکتی بودھ جی نے دُلارے، اپنے شاگرد کو بھیج کر استاد کلب علی کا سِتار منگوایا، جس پر ہاتھ رکھتے ہی وہ سب کچھ بھول گئے۔ بجاتے ہوئے کیسے وہ اس ساز سے لپٹ لپٹ جاتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا، جیسے ان کے بازوؤں میں کوئی محبوبہ ہے، جس پر جھُک جھُک کر، جِسے چو‘م چو‘م کر، جس پر انگلیاں دوڑا دوڑا کر، وہ کسی نئی زندگی کے سُر نکال رہے ہیں—بُڑھیا دیکھ رہی تھی اور کباب ہو رہی تھی۔ یہاں کی عورت، وہاں کی عورت کی ہمیشہ حاسد رہی ہے— یہ کہ اُسے اپنی ذات میں کھوکر، اپنے مالک میں مدغم ہو کر اُس کی ملکہ ہو جانا چاہیے، سب باتیں ہیں— وہ تو اپنے میاں کی ہر دل عزیزی سے بھی جل بھن کر راکھ ہو جاتی ہے
ایک جھالے کے بعد یکدم مکتی بودھ جی نے سِتار ایک طرف رکھ دیا اور پھر وہی اپنے آپ پر رحم —اس پر بھی تو یہ سب اپنے آپ سے ہوتے دیکھ رہا ہے مکتی—کیوں نہیں تو نند لالوں سے کہہ سکتا — نہیں چاہیے مجھے تمھارا ’سجدہ‘ جو سجدہ ہی نہیں
پھر انھیں رستم کے آخری دن یاد آ جاتے، جن میں وہ روتا اور سر اوپر اُٹھا کر، ہاتھ پھیلا کر کہتا—اللہ! کہاں گئے وہ میرے دن، جب میں چلتا تھا تو میرے پانْو زمین میں دھنس دھنس جاتے تھے۔ اور آج؟
پھر وہ نعت، جس کی دھُن اپنی بیکاری کے دِنوں میں مکتی جی نے نکالی تھی، جسے گاتے ہوئے انھوں نے بیچ میں سب بند کر دیا۔ یہ بھیرویں، یہ ٹوڈی—کیا میاں کی اور کیا بیوی کی اور کیا کھماچ سب بکواس ہیں۔ قرآن کی بھی تو آیت ہے، جس رُخ زمانہ پھرے، اُسی رُخ پھر جاؤ…میں نہیں پھر سکتا، میری ہڈیاں بوڑھی ہو گئی ہیں، جو ٹوٹ سکتی ہیں، مُڑ نہیں سکتیں۔
نہیں! میں یہ نہیں کروں گا—میں نہیں مرغِ باد گرد۔ میں نے اپنے سنگیت، اپنی ماں سے پیار کیا ہے، ایشور! عورتیں بیسیوں، سیکڑوں ہو سکتی ہیں، ماں صرف ایک…کیا میں بھوکا بھی نہیں مر سکتا؟ یہ آزادی مجھ سے کوئی نہیں، کوئی نہیں چھین سکتا
نند لال دس دن بعد بھی نہ لوٹا، بیچ میں ہیرا مکتی بودھ جی کے گھر کا طواف کرتا رہا۔ مگر ان کا دروازہ کھٹکھٹانے، اندر جانے کی اس کی ہمت نہ پڑی۔ شاید وہ مکتی بودھ جی سے اتنا نہ ڈرتا تھا، جتنا اُن کی بُڑھیا سے۔
اب کے جو ہیرا آیا تو ایک تار سے مسلح۔ تار کلکتہ سے آیا تھا، جس میں لوٹنے کا تِتھ وار سبھی لکھے تھے۔ اس دستاویز کو کانپتے ہوئے ہاتھوں میں لے کر مکتی بودھ پھر کچھ بھول گئے—اور آنکھیں سکوڑکر کہیں دور دیکھتے ہوئے بولے— ہُوں…!
ہیرا اندر سے جانتا تھا کہ اگر مجھے مکتی بودھ جی کی ضرورت ہے تو انھیں بھی میری—اور نند لال کی—مقررہ تاریخ کو نند لال واقعی چلا آیا۔ ہیرا اُسے گھیر گھار کر مکتی جی کے ہاں لے بھی آیا۔ کیا تیقن سے اس کے ہاتھ گھنٹی پر پڑے۔ بہت دیر تک اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ آخر پتا چلا کوئی آ رہا ہے۔ دروازہ کھلا تو سامنے بُڑھیا تھی، جو انھیں پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کانچ تھا۔ سارے چہرے پر پرچھائیاں پھیلی تھیں اور جھریوں میں کوئی سِلٹ جمی تھی، جیسے طوفان اور باڑھ کے بعد چھوٹے بڑے ندی نالوں میں جم جاتی ہے۔
بُڑھیا نے ان کو جانے کے لیے کہا، نہ بیٹھنے کے لیے۔ اس پر بھی وہ اندر جا کر بیٹھ گئے۔
ہیرا نے پوچھا—انکل کہاں ہیں آنٹی؟
پہلے تو وہ ایسے ہی بڑبڑ دیکھتی رہی۔ آخر بولی—جانے کہاں کھپ گیا ہے، بڑھؤ … اسے تو موت بھی نہیں آتی…کیا کیا ٹونے نہ کیے میں نے…۔
تین گھنٹے انتظار کے بعد نند لال چیک سمیت لوٹ گئے۔ ہیرا نے اور کوئی دیر دیکھ لینے کو کہا، مگر نند لال راضی نہ ہوا۔ اُٹھتے ہوئے نند لال نے تسلی کے لیے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا، چیک وہیں تھا! ہیرا کی حالت ابتر تھی البتہ۔ اتنی محنت سے بنائی ہوئی اس کی عمارت ڈھے گئی تھی۔ جس ٹھیکے دار کو اسے بننے کے لیے دیا تھا، اس نے سیمنٹ سے زیادہ ریت اس میں ملا دی تھی۔
ہیرا گم صُم جا رہا تھا کہ دُور سے اس کے کان میں کوئی دھُن سنائی دینے لگی—جو پیلو میں بندھی تھی
ہیرا نے نند لال سے پوچھا—آپ کو کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اس اینٹوپ ہل کے پیچھے سے جہاں عرب ساگر ہے؟ نند لال نے سننے کی کوشش کی اور بولا—نہیں تو —ہاں—نہیں تو

٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)