سوز دروں سے مجھ پہ ستم برملا ہوا
ٹکڑا جگر کا آنکھوں سے نکلا جلا ہوا
بدحال ہوکے چاہ میں مرنے کا لطف کیا
دل لگتے جو موا کوئی عاشق بھلا ہوا
نکلا گیا نہ دام سے پر پیچ زلف کے
اے وائے یہ بلا زدہ دل مبتلا ہوا
کیا اور لکھیے کیسی خجالت مجھے ہوئی
سر کو جھکائے آیا جو قاصد چلا ہوا
رہتا نہیں تڑپنے سے ٹک ہاتھ کے تلے
کیا جانوں میرؔ دل کو مرے کیا بلا ہوا
No comments:
Post a Comment