ہے عشق میں جو حال بتر
تو ہے کیا عجب
مر جائے کوئی خستہ جگر
تو ہے کیا عجب
لے جا کے نامے کتنے
کبوتر ہوئے ہیں ذبح
اڑتی سی ہم کو آوے خبر
تو ہے کیا عجب
شبہائے تار و تیرہ
زمانے میں دن ہوئیں
شب ہجر کی بھی ہووے
سحر تو ہے کیا عجب
جیسے ہے رخنہ رخنہ یہ
چرخ اثیر سب
اس آہ کا ہو اس میں
اثر تو ہے کیا عجب
جاتی ہے چشم شوخ کسی کی
ہزار جا
آوے ادھر بھی اس کی
نظر تو ہے کیا عجب
لغزش ملک سے ہووے لچک
اس کمر کی دیکھ
عاشق سے جو بندھے نہ
کمر تو ہے کیا عجب
ترک وطن کیا ہے عزیزوں
نے چاہ میں
کر جائے کوئی رفتہ سفر
تو ہے کیا عجب
برسوں سے ہاتھ مارتے ہیں
سر پہ اس بغیر
ہووے بھی ہم سے دست
بسر تو ہے کیا عجب
معلوم سودمندی عشاق
عشق میں
پہنچے ہے اس سے ہم کو
ضرر تو ہے کیا عجب
گھر بار میں لٹا کے گیا
گھر سے بھی نکل
اب آوے وہ کبھو مرے
گھر تو ہے کیا عجب
ملتی نہیں ہے آنکھ اس
آئینہ رو کی میرؔ
وہ دل جو لے کے جاوے
مکر تو ہے کیا عجب
No comments:
Post a Comment