رباعیات
مری شاخ امل کا ہے ثمر کیا
تری تقدیر کی مجھ کو خبر کیا
تری تقدیر کی مجھ کو خبر کیا
کلی گل کی ہے محتاج کشود آج
نسیم صبح فردا پر نظر کیا!
نسیم صبح فردا پر نظر کیا!
٭٭٭
فراغت دے اسے کار جہاں سے
کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے
کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے
ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش
گناہ تازہ تر لائے کہاں سے!
گناہ تازہ تر لائے کہاں سے!
٭٭٭
دگرگوں عالم شام و سحر کر
جہان خشک و تر زیر و زبر کر
جہان خشک و تر زیر و زبر کر
رہے تیری خدائی داغ سے پاک
مرے بے ذوق سجدوں سے حذر کر
مرے بے ذوق سجدوں سے حذر کر
٭٭٭
غریبی میں ہوں محسود امیری
کہ غیرت مند ہے میری فقیری
کہ غیرت مند ہے میری فقیری
حذر اس فقر و درویشی سے، جس نے
مسلماں کو سکھا دی سر بزیری
٭٭٭
خرد کی تنگ دامانی سے فریاد
تجلی کی فراوانی سے فریاد
تجلی کی فراوانی سے فریاد
گوارا ہے اسے نظارۂ غیر
نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد
٭٭٭
کہا اقبال نے شیخ حرم سے
تہ محراب مسجد سو گیا کون
تہ محراب مسجد سو گیا کون
ندا مسجد کی دیواروں سے آئی
فرنگی بت کدے میں کھو گیا کون؟
٭٭٭
کہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد
کہ ہے مرد مسلماں کا لہو سرد
کہ ہے مرد مسلماں کا لہو سرد
بتوں کو میری لادینی مبارک
کہ ہے آج آتش اللہ ہو، سرد
٭٭٭
حدیث بندۂ مومن دل آویز
جگر پر خوں، نفس روشن، نگہ تیز
جگر پر خوں، نفس روشن، نگہ تیز
میسر ہو کسے دیدار اس کا
کہ ہے وہ رونق محفل کم آمیز
٭٭٭
تمیز خار و گل سے آشکارا
نسیم صبح کی روشن ضمیری
نسیم صبح کی روشن ضمیری
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
اگر کانٹے میں ہو خوئے حریری
٭٭٭
نہ کر ذکر فراق و آشنائی
کہ اصل زندگی ہے خود نمائی
کہ اصل زندگی ہے خود نمائی
نہ دریا کا زیاں ہے، نے گہر کا
دل دریا سے گوہر کی جدائی
٭٭٭
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوۂ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟
٭٭٭
خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے
جہاں روشن ہے نور لا الہ سے
جہاں روشن ہے نور لا الہ سے
فقط اک گردش شام و سحر ہے
اگر دیکھیں فروغ مہر و مہ سے
٭٭٭
کبھی دریا سے مثل موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر
٭٭٭
No comments:
Post a Comment