بوجھ
اِبنِ مُنیب
مجھے
روز ایک ہی خواب آتا ہے۔
میں چیونٹی ہوں اور ایک بھاری بوجھ اُٹھائے ایک
تنگ راستے پر چڑھائی چڑھ رہا ہوں۔ راستے کے دونوں طرف گہرائی ہے۔ مجھے نیچے نظر
نہیں آتا۔ کوئی پھونک مارتا ہے۔ میرے قدم اُکھڑ جاتے ہیں۔ میں بوجھ سمیت گہرائی
میں گرتا ہوں۔ مگر مجھے چوٹ نہیں آتی۔ شاید نیچے سبزہ ہے۔ میں اپنے آپ کو سنبھالتا
ہوں۔ اپنا بوجھ ڈھونڈنے لگتا ہوں۔ سبزے کے بیچ ایک قبر ہے۔ مجھے اِس قبر سے سخت
وحشت ہوتی ہے۔ میں دیوانہ وار اِس سے دُور بھاگتا ہوں۔ راستے میں میرا بوجھ پڑا
ہے۔ میں اِسے اُٹھاتا ہوں اور بمشکل قدم اُٹھاتا ہوا پھر تنگ راستے پر چڑھنے لگتا
ہوں۔ بوجھ پہلے سے زیادہ بھاری ہے۔ پر میں رُکتا نہیں۔ چڑھتا جاتا ہوں۔ کوئی پھونک
مارتا ہے۔ میرے قدم اُکھڑ جاتے ہیں۔ میں پھر بوجھ سمیت گرتا ہوں۔ میری آنکھ کھل
جاتی ہے۔ میں پسینے میں ڈوبا ہوا ہوں۔ میرا انگ انگ درد کر رہا ہے۔ میں آنکھیں بند
کرتا ہوں اور دوبارہ سونے کی کوشش کرتا ہوں۔ شاید سو جاتا ہوں۔ شاید نہیں۔
امّاں کہتی ہے تُو دِن بھر محنت کرتا ہے۔ تیرا ذہن
تھک جاتا ہے۔
امّاں سمجھتی ہے میں اسٹیشن پر سامان اُٹھاتا ہوں۔
اُسے نہیں پتا میں اب بِھیڑ میں جیبیں کاٹنے لگا ہوں۔
قبر والی بات میں امّاں کو نہیں بتاتا۔ ابھی تو
اُس کا علاج چل رہا ہے۔ ٹھیک ہو جائے گی۔ اب تو میں جیب کاٹنے میں ماہر ہو گیا
ہوں۔ میں اِس سے ڈرتا نہیں۔ پر مجھے رات کو نیند نہیں آتی۔ بس جب امّاں آیت الکرسی
پڑھ کر مُجھ پر پھونکتی ہے تو میری آنکھ لگ جاتی ہے۔ امّاں کہتی ہے یہ ہمیں اپنے
اور دوسروں کے شر سے بچاتی ہے۔ شاید اُسے میرے بوجھ کا پتا چل گیا ہے۔ ماں ہے،
بھولی بنتی ہے۔ بتاتی نہیں۔ مجھے لگتا ہے جب میں سو جاتا ہوں تو وہ رات کو دوبارہ
آتی ہے۔ اور آیت الکرسی پڑھ پڑھ کر مجھ پر پھونکتی ہے۔ مجھے میرے اپنے اور دوسروں
کے شر سے بچانے کے لئے۔ میں بھی سوچتا ہوں اپنا بوجھ اُتار پھینکوں۔ تنگ راستہ
چھوڑ دُوں۔
پر مجھ سے وہ قبر دیکھی نہیں جاتی۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment