جمع اس کے
نکلے عالم ہو گیا
جب تلک ہم جائیں
اودھم ہو گیا
گو پریشاں ہو
گئے گیسوئے یار
حال ہی اپنا
تو درہم ہو گیا
کیا کہوں کیا
طرح بدلی یار نے
چاؤ تھا دل میں
سو اب غم ہو گیا
کیا لکھوں
مشکل ہوئی تحریر حال
خط کا کاغذ
رونے سے نم ہو گیا
دم دیے بہتیرے
یاروں نے ولے
خشک نے سا شیخ
بے دم ہو گیا
کیوں نہ درہم
برہم اپنا ہو مزاج
بات کہتے یار
برہم ہو گیا
باغ جیسے راغ
وحشت گاہ ہے
یاں سے شاید
گل کا موسم ہو گیا
کیا نماز اے میرؔ اس اوقات کی
جب کہ قد
محراب سا خم ہو گیا
No comments:
Post a Comment