غیروں سے مل چلے تم مست شراب ہو کر
غیرت سے رہ گئے ہم یک سو کباب ہو کر
اس روئے آتشیں سے برقع سرک گیا تھا
گل بہ گیا چمن میں خجلت سے آب ہو کر
کل رات مند گئی تھیں بہتوں کی آنکھیں غش
سے
دیکھا کیا نہ کر تو سرمست خواب ہو کر
پردہ رہے گا کیونکر خورشید خاوری کا
نکلے ہے صبح وہ بھی اب بے نقاب ہو کر
یک قطرہ آب میں نے اس دور میں پیا ہے
نکلا ہے چشم تر سے وہ خون ناب ہو کر
آ بیٹھتا تھا صوفی ہر صبح میکدے میں
شکر خدا کہ نکلا واں سے خراب ہو کر
شرم و حیا کہاں تک ہیں میرؔ کوئی دن کے
اب تو ملا کرو تم ٹک بے حجاب ہو کر
ہو آدمی اے چرخ ترک گردش ایام کر
خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دور جام کر
دنیا ہے بے صرفہ نہ ہو رونے میں یا
کڑھنے میں تو
نالے کو ذکر صبح کر گریے کو ورد شام کر
مست جنوں رہ روز و شب شہرہ ہو شہر و دشت
میں
مجلس میں اپنی نقل خوش زنجیر کا بادام
کر
جتنی ہو ذلت خلق میں اتنی ہے عزت عشق میں
ناموس سے آ درگذر بے ننگ ہو کر نام کر
مر رہ کہیں بھی میرؔ جا سرگشتہ پھرنا تا
کجا
ظالم کسو کا سن کہا کوئی گھڑی آرام کر
No comments:
Post a Comment