حسین احمد
عجم ہنوز نداند رموز دیں، ورنہ
ز دیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
ز دیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی ، تمام بولہبی است
اگر بہ او نرسیدی ، تمام بولہبی است
جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ
ارزانی
کوئی شے چھپ نہیں سکتی کہ یہ عالم ہے نورانی
کوئی شے چھپ نہیں سکتی کہ یہ عالم ہے نورانی
کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہانی
یہ دنیا دعوت دیدار ہے فرزند آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی
یہی فرزند آدم ہے کہ جس کے اشک خونیں سے
کیا ہے حضرت یزداں نے دریاؤں کو طوفانی
کیا ہے حضرت یزداں نے دریاؤں کو طوفانی
فلک کو کیا خبر یہ خاکداں کس کا نشیمن ہے
غرض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی
غرض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی
اگر مقصود کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا
ہے
مرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے؟
مرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے؟
i want to this book
ReplyDelete