Sunday 21 May 2017

Kuarntyn " AFamous urdu Short story by Rajinder Singh Bed
















کوارنٹین
راجندر سنگھ بیدی

پلیگ اور کوارنٹین!
ہمالہ کے پاؤں میں لیٹے ہوئے میدانوں پر پھیل کر ہر ایک چیز کو دھُندلا بنا دینے والی کُہرے کے مانند پلیگ کے خوف نے چاروں طرف اپنا تسلط جما لیا تھا۔ شہر کا بچہ بچہ اس کا نام سُن کر کانپ جاتا تھا۔
پلیگ تو خوف ناک تھی ہی، مگر کوارنٹین اُس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی۔ لوگ پلیگ سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے، اور یہی وجہ تھی کہ محکمۂ حفظانِ صحت نے شہریوں کو چوہوں سے بچنے کی تلقین کرنے کے لیے جو قد آدم اشتہار چھپوا کر دروازوں، گزر گاہوں اور شاہراہوں پر لگایا تھا، اُس پر ’’نہ چوہا نہ پلیگ‘‘ کے عنوان میں اضافہ کرتے ہوئے ’’نہ چوہا نہ پلیگ، نہ کوارنٹین‘‘ لکھا تھا۔
کوارنٹین کے متعلق لوگوں کا خوف بجا تھا۔ بحیثیت ایک ڈاکٹر کے میری رائے نہایت مستند ہے اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جتنی اموات شہر میں کوارنٹین سے ہوئیں، اتنی پلیگ سے نہ ہوئیں، حالاں کہ کوارنٹین کوئی بیماری نہیں، بلکہ وہ اُس وسیع رقبہ کا نام ہے جس میں متعدی وبا کے ایّام میں بیمار لوگوں کو تندرست انسانوں سے ازروئے قانون علاحدہ کر کے لا ڈالتے ہیں تاکہ بیماری بڑھنے نہ پائے۔ اگرچہ کوارنٹین میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا کافی انتظام تھا، پھر بھی مریضوں کے کثرت سے وہاں آ جانے پر اُن کی طرف فرداً فرداً توجہ نہ دی جا سکتی تھی۔ خویش و اقارب کے قریب نہ ہونے سے میں نے بہت سے مریضوں کو بے حوصلہ ہوتے دیکھا۔ کئی تو اپنے نواح میں لوگوں کو پَے در پَے مرتے دیکھ کر مرنے سے پہلے ہی مرگئے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ کوئی معمولی طور پر بیمار آدمی وہاں کی وبائی فضا ہی کے جراثیم سے ہلاک ہو گیا اور کثرتِ اموات کی وجہ سے آخری رسوم بھی کوارنٹین کے مخصوص طریقہ پر ادا ہوتیں ،یعنی سینکڑوں لاشوں کو مردہ کتوں کی نعشوں کی طرح گھسیٹ کر ایک بڑے ڈھیر کی صورت میں جمع کیا جاتا اور بغیر کسی کے مذہبی رسوم کا احترام کیے، پٹرول ڈال کر سب کو نذرِ آتش کر دیا جاتا اور شام کے وقت جب ڈوبتے ہوئے سورج کی آتشیں شفق کے ساتھ بڑے بڑے شعلے یک رنگ وہم آہنگ ہوتے تو دوسرے مریض یہی سمجھتے کہ تمام دنیا کو آگ لگ رہی ہے۔
کوارنٹین اس لیے بھی زیادہ اموات کا باعث ہوئی کہ بیماری کے آثار نمودار ہوتے تو بیمار کے متعلقین اُسے چھپانے لگتے، تاکہ کہیں مریض کو جبراً کوارنٹین میں نہ لے جائیں۔ چوں کہ ہر ایک ڈاکٹر کو تنبیہ کی گئی تھی کہ مریض کی خبر پاتے ہی فوراً مطلع کرے، اس لیے لوگ ڈاکٹروں سے علاج بھی نہ کراتے اور کسی گھر کے وبائی ہونے کا صرف اُسی وقت پتہ چلتا، جب کہ جگر دوز آہ و بُکا کے درمیان ایک لاش اُس گھر سے نکلتی۔
اُن دنوں میں کوارنٹین میں بطور ایک ڈاکٹر کے کام کر رہا تھا۔ پلیگ کا خوف میرے   دل و دماغ پر بھی مسلّط تھا۔ شام کو گھر آنے پر میں ایک عرصہ تک کار بالک صابن سے ہاتھ دھوتا رہتا اور جراثیم کش مرکب سے غرارے کرتا، یا پیٹ کو جلا دینے والی گرم کافی یا برانڈی پی لیتا۔ اگرچہ اُس سے مجھے بے خوابی اور آنکھوں کے چندھے پن کی شکایت پیدا ہو گئی۔ کئی دفعہ بیماری کے خوف سے میں نے قے آور دوائیں کھا کر اپنی طبیعت کو صاف کیا۔ جب نہایت گرم کافی یا برانڈی پینے سے پیٹ میں تخمیر ہوتی اور بخارات اُٹھ اُٹھ کر دماغ کو جاتے، تو میں اکثر ایک حواس باختہ شخص کے مانند طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتا ۔ گلے میں ذرا بھی خراش محسوس ہوتی تو میں سمجھتا کہ پلیگ کے نشانات نمودار ہونے والے ہیں … اُف ! میں بھی اس موذی بیماری کا شکار ہو جاؤں گا … پلیگ! اور پھر … کوارنٹین!
اُنھیں دنوںمیں نوعیسائی ولیم بھاگو خاکروب، جو میری گلی میں صفائی کیا کرتا تھا، میرے پاس آیا اور بولا۔ ’’بابوجی … غضب ہو گیا۔ آج ایمبو اسی محلہ کے قریب سے بیس اور ایک بیمار لے گئی ہے۔‘‘
’’اکیس؟ ایمبولینس میں …؟ ‘‘ میں نے متعجب ہوتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔
’’جی ہاں … پورے بیس اور ایک … اُنھیں بھی کونٹن (کوارنٹین) لے جائیں گے… آہ! وہ بے چارے کبھی واپس نہ آئیں گے؟‘‘
دریافت کرنے پر مجھے علم ہوا کہ بھاگو رات کے تین بجے اُٹھتا ہے۔ آدھ پاؤ شراب چڑھا لیتا ہے۔ اور پھر حسب ہدایت کمیٹی کی گلیوں میں اور نالیوں میں چونا بکھیرنا شروع کر دیتا ہے، تاکہ جراثیم پھیلنے نہ پائیں۔ بھاگو نے مجھے مطلع کیا کہ اُس کے تین بجے اُٹھنے کا یہ بھی مطلب ہے کہ بازار میں پڑی ہوئی لاشوں کو اکٹھا کرے اور اُس محلہ میں جہاں وہ کام کرتا ہے، اُن لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کاج کرے جو بیماری کے خوف سے باہر نہیں نکلتے۔ بھاگو تو بیماری سے ذرا بھی نہیں ڈرتا تھا۔ اُس کا خیال تھا اگر موت آئی ہو تو خواہ وہ کہیں بھی چلا جائے، بچ نہیں سکتا۔
اُن دنوں جب کوئی کسی کے پاس نہیں پھٹکتا تھا، بھاگو سر اور منھ پر منڈاسا باندھے نہایت انہماک سے بنی نوع انسان کی خدمت گزاری کر رہا تھا۔ اگرچہ اُس کا علم نہایت محدود تھا، تاہم اپنے تجربوں کی بنا پر وہ ایک مقرر کی طرح لوگوں کو بیماری سے بچنے کی تراکیب بتاتا۔ عام صفائی ، چونا بکھیرنے اور گھر سے باہر نہ نکلنے کی تلقین کرتا۔ ایک دن میں نے اُسے لوگوں کو شراب کثرت سے پینے کی تلقین کرتے ہوئی بھی دیکھا۔ اُس دن جب وہ میرے پاس آیا تو میں نے پوچھا۔’’بھاگو تمھیں پلیگ سے ڈر بھی نہیں لگتا؟‘‘
’’نہیں بابوجی… بن آئی بال بھی بیکا نہیں ہو گا۔ آپ اِتے بڑے حکیم ٹھہرے، ہزاروں نے آپ کے ہاتھ سے شفا پائی۔ مگر جب میری آئی ہو گی تو آپ کا دارو درمن بھی کچھ اثر نہ کرے گا… ہاں بابوجی … آپ بُرا نہ مانیں۔ میں ٹھیک اور صاف صاف کہہ رہا ہوں۔‘‘ اور پھر گفتگو کا رُخ بدلتے ہوئے بولا۔ ’’کچھ کونٹین کی کہیے بابوجی… کونٹین کی۔‘‘
’’وہاں کوارنٹین میں ہزاروں مریض آ گئے ہیں۔ ہم حتّی الوسع اُن کا علاج کرتے ہیں۔ مگر کہاں تک، نیز میرے ساتھ کام کرنے والے خود بھی زیادہ دیر اُن کے درمیان رہنے سے گھبراتے ہیں۔ خوف سے اُن کے گلے اور لب سوکھے رہتے ہیں۔ پھر تمھاری طرح کوئی مریض کے منھ کے ساتھ منھ نہیں جا لگاتا۔ نہ کوئی تمھاری طرح اتنی جان مارتا ہے … بھاگو ! خدا تمھارا بھلا کرے۔ جو تم بنی نوع انسان کی اس قدر خدمت کرتے ہو۔‘‘
بھاگو نے گردن جھکا دی اور منڈاسے کے ایک پلّو کو منھ پر سے ہٹا کر شراب کے اثر سے سُرخ چہرے کو دکھاتے ہوئے بولا۔ ’’بابوجی، میں کس لائق ہوں۔ مجھ سے کسی کا بھلا ہو جائے، میرا یہ نکمّا تن کسی کے کام آ جائے، اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے۔ بابوجی بڑے پادری لابے (ریورینڈ مونت ل، آبے) جو ہمارے محلوں میں اکثر پرچار کے لیے آیا کرتے ہیں، کہتے ہیں، خداوند یسوع مسیح یہی سکھاتا ہے کہ بیمار کی مدد میں اپنی جان تک لڑا دو … میں سمجھتا ہوں…‘‘
میں نے بھاگو کی ہمّت کو سراہنا چاہا، مگر کثرتِ جذبات سے میں رُک گیا۔ اُس کی خوش اعتقادی اور عملی زندگی کو دیکھ کر میرے دل میں ایک جذبۂ رشک پیدا ہوا۔ میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ آج کوارنٹین میں پوری تن دہی سے کام کر کے بہت سے مریضوں کو بقیدِ حیات رکھنے کی کوشش کروں گا۔ اُن کو آرام پہنچانے میں اپنی جان تک لڑا دوں گا۔ مگر کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کوارنٹین میں پہنچ کر جب میں نے مریضوں کی خوفناک حالت دیکھی اور اُن کے منھ سے پیدا شدہ تعفّن میرے نتھنوں میں پہنچا، تو میری روح لرز گئی اور بھاگو کی تقلید کرنے کی ہمت نہ پڑی۔
تاہم اُس دن بھاگو کو ساتھ لے کر میں نے کوارنٹین میں بہت کام کیا۔ جو کام مریض کے زیادہ قریب رہ کر ہو سکتا تھا، وہ میں نے بھاگو سے کرایا اور اُس نے بلا تامل کیا… خود میں مریضوں سے دُور دُور ہی رہتا، اس لیے کہ میں موت سے بہت خائف تھا اور اُس سے بھی زیادہ کوارنٹین سے۔
مگر کیا بھاگو موت اور کوارنٹین ،دونوں سے بالاتر تھا؟
اُس دن کوارنٹین میں چار سو کے قریب مریض داخل ہوئے اور اڑھائی سو کے لگ بھگ لقمۂ اجل ہو گئے!
یہ بھاگو کی جانبازی کا صدقہ ہی تھا کہ میں نے بہت سے مریضوں کو شفایاب کیا۔ وہ نقشہ جو مریضوں کی رفتارِ صحت کے متعلق چیف میڈیکل آفیسر کے کمرے میں آویزاں تھا، اُس میں میرے تحت میں رکھے ہوئے مریضوں کی اوسط صحت کی لکیر سب سے اُونچی چڑھی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ میں ہر روز کسی نہ کسی بہانہ سے اُس کمرہ میں چلا جاتا اور اُس لکیر کو سو فیصدی کی طرف اُوپر ہی اُوپر بڑھتے دیکھ کر دل میں بہت خوش ہوتا۔
ایک دن میں نے برانڈی ضرورت سے زیادہ پی لی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ نبض گھوڑے کی طرح دوڑنے لگی اور میں ایک جنونی کی مانند اِدھر اُدھر بھاگنے لگا ۔ مجھے خود شک ہونے لگا کہ پلیگ کے جراثیم نے مجھ پر آخرکار اپنا اثر کر ہی دیا ہے اور عنقریب ہی گلٹیاں میرے گلے یا رانوں میں نمودار ہوں گی۔ میں بہت سراسیمہ ہو گیا۔ اُس دن میں نے کوارنٹین سے بھاگ جانا چاہا۔ جتنا عرصہ بھی میں وہاں ٹھہرا، خوف سے کانپتا رہا۔ اُس دن مجھے بھاگو کو دیکھنے کا صرف دو دفعہ اتفاق ہوا۔
دوپہر کے قریب میں نے اُسے ایک مریض سے لپٹے ہوئے دیکھا۔ وہ نہایت پیار سے اُس کے ہاتھوں کو تھپک رہا تھا۔ مریض میں جتنی بھی سکت تھی اُسے جمع کرتے ہوئے اُس نے کہا، ’’بھئی اللہ ہی مالک ہے۔ اس جگہ تو خدا دشمن کو بھی نہ لائے۔ میری دو لڑکیاں …‘‘
بھاگو نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’خداوند یسوع مسیح کا شکر کرو بھائی … تم تو اچھے دکھائی دیتے ہو۔‘‘
’’ہاں بھائی شکر ہے خدا کا … پہلے سے کچھ اچھا ہی ہوں۔ اگر میں کوارنٹین…‘‘
ابھی یہ الفاظ اُس کے منھ میں ہی تھے کہ اُس کی نسیں کھچ گئیں۔ اُس کے منھ سے کف جاری ہو گیا۔ آنکھیں پتھرا گئیں۔ کئی جھٹکے آئے اور وہ مریض،جو ایک لمحہ پہلے سب کو اور خصوصاً اپنے آپ کو اچھا دکھائی دے رہا تھا، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ بھاگو اُس کی موت پر دکھائی نہ دینے والے خون کے آنسو بہانے لگا اور کون اُس کی موت پر آنسو بہاتا۔ کوئی اُس کا وہاں ہوتا تو اپنے جگر دوز نالوں سے ارض و سما کو شق کر دیتا۔ ایک بھاگو ہی تھا جو سب کا رشتہ دار تھا۔ سب کے لیے اُس کے دل میں درد تھا۔ وہ سب کی خاطر روتا اور کڑھتا تھا … ایک دن اُس نے خداوند یسوع مسیح کے حضور میں نہایت عجز و انکسار سے اپنے آپ کو بنی نوع انسان کے گناہ کے کفارہ کے طور پر بھی پیش کیا۔
اُسی دن شام کے قریب بھاگو میرے پاس دوڑا دوڑا آیا۔ سانس پھولی ہوئی تھی اور وہ ایک دردناک آواز سے کراہ رہا تھا۔ بولا۔ ’’بابوجی … یہ کونٹین تو دوزخ ہے۔ دوزخ۔ پادری لابے اسی قسم کی دوزخ کا نقشہ کھینچا کرتا تھا … ‘‘
میں نے کہا۔ ’’ہاں بھائی، یہ دوزخ سے بھی بڑھ کر ہے … میں تو یہاں سے بھاگ نکلنے کی ترکیب سوچ رہا ہوں… میری طبیعت آج بہت خراب ہے۔‘‘
’’بابوجی اس سے زیادہ اور کیا بات ہو سکتی ہے … آج ایک مریض جو بیماری کے خوف سے بے ہوش ہو گیا تھا، اُسے مردہ سمجھ کر کسی نے لاشوں کے ڈھیروں میں جا ڈالا۔ جب پٹرول چھڑکا گیا اور آگ نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، تو میں نے اُسے شعلوں میں ہاتھ پانوں مارتے دیکھا۔ میں نے کود کر اُسے اٹھا لیا۔ بابوجی ! وہ بہت بُری طرح جھلسا گیا تھا … اُسے بچاتے ہوئے میرا دایاں بازو بالکل جل گیا ہے۔‘‘
میں نے بھاگو کا بازو دیکھا۔ اُس پر زرد زرد چربی نظر آ رہی تھی۔ میں اُسے دیکھتے ہوئے لرز اُٹھا۔ میں نے پوچھا۔ ’’کیا وہ آدمی بچ گیا ہے۔ پھر… ؟‘‘
’’بابوجی … وہ کوئی بہت شریف آدمی تھا۔ جس کی نیکی اور شریفی (شرافت) سے دنیا کوئی فائدہ نہ اُٹھا سکی، اتنے درد و کرب کی حالت میں اُس نے اپنا جھلسا ہوا چہرہ اُوپر اٹھایا اور اپنی مریل سی نگاہ میری نگاہ میں ڈالتے ہوئے اُس نے میرا شکریہ ادا کیا۔‘‘
’’… اور بابوجی‘‘ بھاگو نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا ’’اس کے کچھ عرصہ بعد وہ اتنا تڑپا، اتنا تڑپا کہ آج تک میں نے کسی مریض کو اس طرح جان توڑتے نہیں دیکھا ہو گا… اس کے بعد وہ مر گیا۔ کتنا اچھا ہوتا جو میں اُسے اسی وقت جل جانے دیتا۔ اُسے بچا کر میں نے اُسے مزید دکھ سہنے کے لیے زندہ رکھا اور پھر وہ بچا بھی نہیں۔ اب ان ہی جلے ہوئے بازوؤں سے میں پھر اُسے اسی ڈھیر میں پھینک آیا ہوں…‘‘
اس کے بعد بھاگو کچھ بول نہ سکا۔ درد کی ٹیسوں کے درمیان اُس نے رُکتے رُکتے کہا۔ ’’آپ جانتے ہیں … وہ کِس بیماری … سے مرا؟ پلیگ سے نہیں۔ … کونٹین سے … کونٹین سے!‘‘
اگرچہ ہمہ یاراں دوزخ کا خیال اُس لامتناہی سلسلۂ قہر و غضب میں لوگوں کو کسی حد تک تسلی کا سامان بہم پہنچاتا تھا، تاہم مقہور بنی آدم کی فلک شگاف صدائیں تمام شب کانوں میں آتی رہتیں۔ ماؤں کی آہ و بُکا، بہنوں کے نالے، بیویوں کے نوحے، بچوں کی چیخ و پکار شہر کی اُس فضا میں، جس میں کہ نصف شب کے قریب اُلّو بھی بولنے سے ہچکچاتے تھے، ایک نہایت الم ناک منظر پیدا کرتی تھی۔ جب صحیح و سلامت لوگوں کے سینوں پر منوں بوجھ رہتا تھا، تو اُن لوگوں کی حالت کیا ہو گی جو گھروں میں بیمار پڑے تھے اور جنھیں کسی یرقان زدہ کے مانند درو دیوار سے مایوسی کی زردی ٹپکتی دکھائی دیتی تھی اور پھر کوارنٹین کے مریض ،جنھیں مایوسی کی حد سے گزر کر ملک الموت مجسم دکھائی دے رہا تھا، وہ زندگی سے یوں چمٹے ہوئے تھے، جیسے کسی طوفان میں کوئی کسی درخت کی چوٹی سے چمٹا ہوا ہو، اور پانی کی تیزو تند لہریں ہر لحظہ بڑھ کر اُس چوٹی کو بھی ڈبو دینے کی آرزومند ہوں۔
میں اُس روز توہم کی وجہ سے کوارنٹین بھی نہ گیا۔ کسی ضروری کام کا بہانہ کر دیا ۔اگرچہ مجھے سخت ذہنی کوفت ہوتی رہی… کیوں کہ یہ بہت ممکن تھا کہ میری مدد سے کسی مریض کو فائدہ پہنچ جاتا۔ مگر اُس خوف نے جو میرے دل و دماغ پر مسلّط تھا، مجھے پا بہ زنجیر رکھا۔ شام کو سوتے وقت مجھے اطلاع ملی کہ آج شام کوارنٹین میں پانسو کے قریب مزید مریض پہنچے ہیں۔
میں ابھی ابھی معدے کو جلا دینے والی گرم کافی پی کر سونے ہی والا تھا کہ دروازے پر بھاگو کی آواز آئی۔ نوکر نے دروازہ کھولا تو بھاگو ہانپتا ہوا اندر آیا۔ بولا۔ ’’بابو جی … میری بیوی بیمار ہو گئی … اس کے گلے میں گلٹیاں نکل آئی ہیں … خدا کے واسطے اُسے بچاؤ … اس کی چھاتی پر ڈیڑھ سالہ بچہ دودھ پیتا ہے، وہ بھی ہلاک ہو جائے گا۔
بجائے گہری ہمدردی کا اظہار کرنے کے، میں نے خشمگیں لہجہ میں کہا۔ ’’اس سے پہلے کیوں نہ آسکے … کیا بیماری ابھی ابھی شروع ہوئی ہے؟‘‘
’’صبح معمولی بخار تھا… جب میں کونٹین گیا …‘‘
’’اچھا … وہ گھر میں بیمار تھی ۔ اور پھر بھی تم کوارنٹین گئے؟‘‘
’’جی بابوجی … ’’بھاگو نے کانپتے ہوئے کہا۔ ’’وہ بالکل معمولی طور پر بیمار تھی۔ میں نے سمجھا کہ شاید دودھ چڑھ گیا ہے … اس کے سوا اور کوئی تکلیف نہیں … اور پھر میرے دونوں بھائی گھر پر ہی تھے … اور سینکڑوں مریض کونٹین میں بے بس…‘‘
’’تو تم اپنی حد سے زیادہ مہربانی اور قربانی سے جراثیم کو گھر لے ہی آئے نا۔ میں نہ تم سے کہتا تھا کہ مریضوں کے اتنا قریب مت رہا کرو… دیکھو میں آج اسی وجہ سے وہاں نہیں گیا۔ اِس میں سب تمھارا قصور ہے۔ اب میں کیا کرسکتا ہوں۔ تم سے جانباز کو اپنی جانبازی کا مزہ بھگتنا ہی چاہیے ۔ جہاں شہر میں سینکڑوں مریض پڑے ہیں …‘‘
بھاگو نے ملتجیانہ انداز سے کہا۔ ’’مگر خداوند یسوع مسیح …‘‘
’’چلو ہٹو … بڑے آئے کہیں کے … تم نے جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالا۔ اب اِس کی سزا میں بھگتوں؟ قربانی ایسے تھوڑے ہی ہوتی ہے۔ میں اتنی رات گئے تمھاری کچھ مدد نہیں کرسکتا …‘‘
’’مگر پادری لابے…‘‘
’’چلو … جاؤ … پادری ل، آبے کے کچھ ہوتے …‘‘
بھاگو سر جھکائے وہاں سے چلا گیا۔ اُس کے آدھ گھنٹہ بعد جب میرا غصہ فرو ہوا تو میں اپنی حرکت پر نادم ہونے لگا۔ میں عاقل کہاں کا تھا جو بعد میں پشیمان ہو رہا تھا۔ میرے لیے یہی یقینا سب سے بڑی سزا تھی کہ اپنی تمام خودداری کو پامال کرتے ہوئے بھاگو کے سامنے گزشتہ رویہ پر اظہارِ معذرت کرتے ہوئے اُس کی بیوی کا پوری جانفشانی سے علاج کروں۔ میں نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور دوڑادوڑا بھاگو کے گھر پہنچا… وہاں پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ بھاگو کے دونوں چھوٹے بھائی اپنی بھاوج کو چارپائی پر لٹائے ہوئے باہر نکال رہے تھے
میں نے بھاگو کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’اسے کہاں لے جا رہے ہو؟
بھاگو نے آہستہ سے جواب دیا۔ ’’کونٹین میں…‘‘
’’تو کیا اب تمھاری دانست میں کوارنٹین دوزخ نہیں … بھاگو؟ …‘‘
’’آپ نے جو آنے سے انکار کر دیا،بابو جی … اور چارہ ہی کیا تھا۔ میرا خیال تھا، وہاں حکیم کی مدد مل جائے گی اور دوسرے مریضوں کے ساتھ اس کا بھی خیال رکھوں گا۔‘‘
’’یہاں رکھ دو چارپائی … ابھی تک تمھارے دماغ سے دوسرے مریضوں کا خیال نہیں گیا؟ … احمق …‘‘
چارپائی اندر رکھ دی گئی اور میرے پاس جو تیر بہ ہدف دوا تھی، میں نے بھاگو کی بیوی کو پلائی اور پھر اپنے غیر مرئی حریف کا مقابلہ کرنے لگا۔ بھاگو کی بیوی نے آنکھیں کھول دیں۔
بھاگو نے ایک لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’آپ کا احسان ساری عمر نہ بھولوں گا، بابوجی۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’مجھے اپنے گزشتہ رویہ پر سخت افسوس ہے بھاگو… ایشور تمھیں تمھاری خدمات کا صلہ تمھاری بیوی کی شفا کی صورت میں دے۔‘‘
اُسی وقت میں نے اپنے غیر مرئی حریف کو اپنا آخری حربہ استعمال کرتے دیکھا۔ بھاگو کی بیوی کے لب پھڑکنے لگے۔ نبض جو کہ میرے ہاتھ میں تھی، مدھم ہو کر شانہ کی طرف سرکنے لگی۔ میرے غیر مرئی حریف نے جس کی عموماً فتح ہوتی تھی، حسبِ معمول پھر مجھے چاروں شانے چت گرایا۔ میں نے ندامت سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔ ’’بھاگو ! بدنصیب بھاگو! تمھیں اپنی قربانی کا یہ عجیب صلہ ملا ہے … آہ!‘‘
بھاگو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
وہ نظارہ کتنا دل دوز تھا، جب کہ بھاگو نے اپنے بلبلاتے ہوئے بچے کو اس کی ماں سے ہمیشہ کے لیے علاحدہ کر دیا اور مجھے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ لوٹا دیا۔
میرا خیال تھا کہ اب بھاگو اپنی دنیا کو تاریک پاکر کسی کا خیال نہ کرے گا … مگر اُس سے اگلے روز میں نے اُسے بیش از پیش مریضوں کی امداد کرتے دیکھا۔ اُس نے سینکڑوں گھروں کو بے چراغ ہونے بچا لیا… اور اپنی زندگی کو ہیچ سمجھا۔ میں نے بھی بھاگو کی تقلید میں نہایت مستعدی سے کام کیا۔ کوارنٹین اور ہسپتالوں سے فارغ ہو کر اپنے فالتو وقت مَیں نے شہر کے غریب طبقہ کے لوگوں کے گھر ،جو کہ بدروؤں کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے، یا غلاظت کے سبب بیماری کے مسکن تھے، رجوع کیا۔
اب فضا بیماری کے جراثیم سے بالکل پاک ہو چکی تھی۔ شہر کو بالکل دھو ڈالا گیا تھا۔ چوہوں کا کہیں نام و نشان دکھائی نہ دیتا تھا۔ سارے شہر میں صرف ایک آدھ کیس ہوتا جس کی طرف فوری توجہ دیے جانے پر بیماری کے بڑھنے کا احتمال باقی نہ رہا۔
شہر میں کاروبار نے اپنی طبعی حالت اختیار کر لی، اسکول، کالج اور دفاتر کھلنے لگے۔
ایک بات جو میں نے شدت سے محسوس کی، وہ یہ تھی کہ بازار میں گزرتے وقت چاروں طرف سے انگلیاں مجھی پر اُٹھتیں۔ لوگ احسان مندانہ نگاہوں سے میری طرف دیکھتے۔ اخباروں میں تعریفی کلمات کے ساتھ میری تصاویر چھپیں۔ اس چاروں طرف سے تحسین و آفرین کی بوچھار نے میرے دل میں کچھ غرور سا پیدا کر دیا۔
آخر ایک بڑا عظیم الشان جلسہ ہوا جس میں شہر کے بڑے بڑے رئیس اور ڈاکٹر مدعو کیے گئے۔ وزیر بلدیات نے اُس جلسہ کی صدارت کی۔ میں صاحبِ صدر کے پہلو میں بٹھایا گیا، کیوں کہ وہ دعوت دراصل میرے ہی اعزاز میں دی گئی تھی۔ ہاروں کے بوجھ سے میری گردن جھکی جاتی تھی اور میری شخصیت بہت نمایاں معلوم ہوتی تھی۔ پُر غرور نگاہ سے میں کبھی ادھر دیکھتا کبھی اُدھر… ’’بنی آدم کی انتہائی خدمت گزاری کے صلہ میں کمیٹی، شکر گزاری کے جذبہ سے معمور ایک ہزار ایک روپئے کی تھیلی بطور ایک حقیر رقم میری نذر کر رہی تھی۔‘‘
جتنے بھی لوگ موجود تھے، سب نے میرے رفقائے کار کی عموماً اور میری خصوصاً تعریف کی اور کہا کہ گزشتہ آفت میں جتنی جانیں میری جانفشانی اور تن دہی سے بچی ہیں، ان کا شمار نہیں۔میں نے نہ دن کو دن دیکھا ،نہ رات کو رات، اپنی حیات کو حیاتِ قوم اور اپنے سرمایہ کو سرمایۂ ملت سمجھا اور بیماری کے مسکنوں میں پہنچ کر مرتے ہوئے مریضوں کو جامِ شفا پلایا!
وزیر بلدیات نے میز کے بائیں پہلو میں کھڑے ہو کر ایک پتلی سی چھڑی ہاتھ میں لی اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے اُن کی توجہ اُس سیاہ لکیر کی طرف دلائی جو دیوار پر آویزاں نقشے میں بیماری کے دنوں میں صحت کے درجہ کی طرف ہر لحظہ افتاں و خیزاں بڑھی جا رہی تھی۔ آخر میں انھوں نے نقشہ میں وہ دن بھی دکھایا جب میرے زیر نگرانی چوّن (54) مریض رکھے گئے اور وہ تمام صحت یاب ہو گئے۔ یعنی نتیجہ سو فیصدی کامیابی رہا اور وہ سیاہ لکیر اپنی معراج کو پہنچ گئی۔
اس کے بعد وزیر بلدیات نے اپنی تقریر میں میری ہمت کو بہت کچھ سراہا اور کہا کہ لوگ یہ جان کر بہت خوش ہوں گے کہ بخشی جی اپنی خدمات کے صلہ میں لفٹیننٹ کرنل بنائے جا رہے ہیں۔
ہال تحسین و آفرین کی آوازوں اور پُر شور تالیوں سے گونج اُٹھا۔
ان ہی تالیوں کے شور کے درمیان میں نے اپنی پُر غرور گردن اُٹھائی۔ صاحبِ صدر اور معزز حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک لمبی چوڑی تقریر کی، جس میں علاوہ اور باتوں کے میں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی توجہ کے قابل ہسپتال اور کوارنٹین ہی نہیں تھے، بلکہ اُن کی توجہ کے قابل غریب طبقہ کے لوگوں کے گھر تھے۔ وہ لوگ اپنی مدد کے بالکل ناقابل تھے اور وہی زیادہ تر اس موذی بیماری کا شکار ہوئے۔ میں اور میرے رفقا نے بیماری کے صحیح مقام کو تلاش کیا اور اپنی توجہ بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں صرف کر دی۔ کوارنٹین اور ہسپتال سے فارغ ہو کر ہم نے راتیں اُن ہی خوفناک مسکنوں میں گزاریں۔
اُسی دن جلسہ کے بعد جب میں بطور ایک لفٹیننٹ کرنل کے اپنی پُرغرور گردن کو اُٹھائے ہوئے، ہاروں سے لدا پھندا، لوگوں کا ناچیز ہدیہ، ایک ہزار ایک روپئے کی صورت میں جیب میں ڈالے ہوئے گھر پہنچا، تو مجھے ایک طرف سے آہستہ سی آواز سنائی دی۔
’’بابو جی… بہت بہت مبارک ہو۔‘‘
اور بھاگو نے مبارک باد دیتے وقت وہی پُرانا جھاڑو قریب ہی کے گندے حوض کے ایک ڈھکنے پر رکھ دیا اور دونوں ہاتھوں سے منڈاسا کھول دیا۔ میں بھونچکا سا کھڑا رہ گیا۔
’’تم ہو؟ … بھاگو بھائی!‘‘ میں نے بہ مشکل تمام کہا … ’’دنیا تمھیں نہیں جانتی بھاگو، تو نہ جانے … میں تو جانتا ہوں ۔ تمھارا یسوع تو جانتا ہے … پادری ل، آبے کے بے مثال چیلے… تجھ پر خدا کی رحمت ہو… !‘‘
اُس وقت میرا گلا سوکھ گیا۔ بھاگو کی مرتی ہوئی بیوی اور بچے کی تصویر میری آنکھوں میں کھچ گئی۔ ہاروں کے بارِ گراں سے مجھے اپنی گردن ٹوٹتی ہوئی معلوم ہوئی اور بٹوے کے بوجھ سے میری جیب پھٹنے لگی۔ اور … اتنے اعزاز حاصل کرنے کے باوجود میں بے توقیر ہو کر اس قدرشناس دنیا کا ماتم کرنے لگا!

٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)