ملا زادہ ضیغم لولا بی کشمیری کا بیاض
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب
مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب
اے وادی لولاب
گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب
دیں بندۂ مومن کے لیے موت ہے یا خواب
دیں بندۂ مومن کے لیے موت ہے یا خواب
اے وادی لولاب
ہیں ساز پہ موقوف نوا ہائے جگر سوز
ڈھیلے ہوں اگر تار تو بے کار ہے مضراب
ڈھیلے ہوں اگر تار تو بے کار ہے مضراب
اے وادی لولاب
ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانۂ صوفی کی مے ناب
بے سوز ہے میخانۂ صوفی کی مے ناب
اے وادی لولاب
بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
اے وادی لولاب
٭٭٭
موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے نام
مکر و فن خواجگی کاش سمجھتا غلام!
مکر و فن خواجگی کاش سمجھتا غلام!
شرع ملوکانہ میں جدت احکام دیکھ
صور کا غوغا حلال، حشر کی لذت حرام!
صور کا غوغا حلال، حشر کی لذت حرام!
اے کہ غلامی سے ہے روح تری مضمحل
سینۂ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام!
سینۂ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام!
٭٭٭
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
سینۂ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستاں بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانۂ دہقان پیر
کوہ کے دامن میں وہ غم خانۂ دہقان پیر
آہ! یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر؟
٭٭٭
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہان چار سوے و رنگ و بو
تھرتھراتا ہے جہان چار سوے و رنگ و بو
پاک ہوتا ہے ظن و تخمیں سے انساں کا ضمیر
کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغ آرزو
کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغ آرزو
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تار رفو
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تار رفو
ضربت پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بت سنگیں دل و آئینہ رو
حاکمیت کا بت سنگیں دل و آئینہ رو
٭٭٭
دراج کی پرواز میں ہے شوکت شاہیں
حیرت میں ہے صیاد، یہ شاہیں ہے کہ دراج!
حیرت میں ہے صیاد، یہ شاہیں ہے کہ دراج!
ہر قوم کے افکار میں پیدا ہے تلاطم
مشرق میں ہے فردائے قیامت کی نمود آج
مشرق میں ہے فردائے قیامت کی نمود آج
فطرت کے تقاضوں سے ہوا حشر پہ مجبور
وہ مردہ کہ تھا بانگ سرافیل کا محتاج
وہ مردہ کہ تھا بانگ سرافیل کا محتاج
٭٭٭
رندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات
ہر چند کہ مشہور نہیں ان کے کرامات
ہر چند کہ مشہور نہیں ان کے کرامات
خود گیری و خود داری و گلبانگ انا الحق
آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اس کے مقامات
آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اس کے مقامات
محکوم ہو سالک تو یہی اس کا ہمہ اوست
خود مردہ و خود مرقد و خود مرگ مفاجات!
خود مردہ و خود مرقد و خود مرگ مفاجات!
٭٭٭
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری
شیاطین ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوق نخچیری
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوق نخچیری
چہ بے پروا گذشتند از نواے صبح گاہ من
کہ برد آں شور و مستی از سیہ چشمگان کشمیری!
کہ برد آں شور و مستی از سیہ چشمگان کشمیری!
٭٭٭
سمجھا لہو کی بوند اگر تو اسے تو خیر
دل آدمی کا ہے فقط اک جذبۂ بلند
دل آدمی کا ہے فقط اک جذبۂ بلند
گردش مہ و ستارہ کی ہے ناگوار اسے
دل آپ اپنے شام و سحر کا ہے نقش بند
دل آپ اپنے شام و سحر کا ہے نقش بند
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
٭٭٭
کھلا جب چمن میں کتب خانۂ گل
نہ کام آیا ملا کو علم کتابی
نہ کام آیا ملا کو علم کتابی
متانت شکن تھی ہوائ بہاراں
غزل خواں ہوا پیرک اندرانی
غزل خواں ہوا پیرک اندرانی
کہا لالہ آتشیں پیرہن نے
کہ اسرار جاں کی ہوں میں بے حجابی
کہ اسرار جاں کی ہوں میں بے حجابی
سمجھتا ہے جو موت خواب لحد کو
نہاں اس کی تعمیر میں ہے خرابی
نہاں اس کی تعمیر میں ہے خرابی
نہیں زندگی سلسلہ روز و شب کا
نہیں زندگی مستی و نیم خوابی
نہیں زندگی مستی و نیم خوابی
حیات است در آتش خود تپیدن
خوش آں دم کہ ایں نکتہ ار بازیابی
خوش آں دم کہ ایں نکتہ ار بازیابی
اگر ز آتش دل شرارے بیری
تواں کرد زیر فلک آفتابی
تواں کرد زیر فلک آفتابی
٭٭٭
آزاد کی رگ سخت ہے مانند رگ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے مانند رگ تاک
محکوم کی رگ نرم ہے مانند رگ تاک
محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نوید
آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک
آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک
آزاد کی دولت دل روشن، نفس گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نم ناک
محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نم ناک
محکوم ہے بیگانۂ اخلاص و مروت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک
ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندۂ افلاک ہے، یہ خواجہ افلاک
وہ بندۂ افلاک ہے، یہ خواجہ افلاک
٭٭٭
تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ
کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ
یہ راز ہم سے چھپایا ہے میر واعظ نے
کہ خود حرم ہے چراغ حرم کا پروانہ
کہ خود حرم ہے چراغ حرم کا پروانہ
طلسم بے خبری، کافری و دیں داری
حدیث شیخ و برہمن فسون و افسانہ
حدیث شیخ و برہمن فسون و افسانہ
نصیب خطہ ہو یا رب وہ بندۂ درویش
کہ جس کے فقر میں انداز ہوں کلیمانہ
کہ جس کے فقر میں انداز ہوں کلیمانہ
چھپے رہیں گے زمانے کی آنکھ سے کب تک
گہر ہیں آب لور کے تمام یک دانہ
گہر ہیں آب لور کے تمام یک دانہ
٭٭٭
دگرگوں جہاں ان کے زور عمل سے
بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے
بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے
منجم کی تقویم فردا ہے باطل
گرے آسماں سے پرانے ستارے
گرے آسماں سے پرانے ستارے
ضمیر جہاں اس قدر آتشیں ہے
کہ دریا کی موجوں سے ٹوٹے ستارے
کہ دریا کی موجوں سے ٹوٹے ستارے
زمیں کو فراغت نہیں زلزلوں سے
نمایاں ہیں فطرت کے باریک اشارے
نمایاں ہیں فطرت کے باریک اشارے
ہمالہ کے چشمے ابلتے ہیں کب تک
خضر سوچتا ہے لور کے کنارے
خضر سوچتا ہے لور کے کنارے
٭٭٭
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال صدق و مروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
خودی سے مرد خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں
کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں
شکوہ عید کا منکر نہیں ہوں میں، لیکن
قبول حق ہیں فقط مرد حر کی تدبیریں
قبول حق ہیں فقط مرد حر کی تدبیریں
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں
ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں
٭٭٭
چہ کافرانہ قمار حیات ممی بازی
کہ با زمانہ بسازی بخود نمی سازی
کہ با زمانہ بسازی بخود نمی سازی
دگر بمدرسہ ہائے حرم نمی بین
دل جنید و نگاہ غزالی و رازی
دل جنید و نگاہ غزالی و رازی
بحکم مفتی اعظم کہ فطرت ازلیست
بدین صعوہ حرام است کار شہبازی
بدین صعوہ حرام است کار شہبازی
ہاں فقیہ ازل گفت جرہ شاہیں ار
بآسماں گروی با زمیں نہ پروازیں
بآسماں گروی با زمیں نہ پروازیں
منجم کہ توبہ نہ کردما ز فاش گوئی ہا
ز بیم ایں کہ بسلطاں کندن غمازی
ز بیم ایں کہ بسلطاں کندن غمازی
بدست ما نہ سمرقند و نے بخارا ایست
دعا بگوش ز فقیرا بہ ترک شیرازی
دعا بگوش ز فقیرا بہ ترک شیرازی
٭٭٭
ضمیر مغرب ہے تاجران، ضمیر مشرق ہے
راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ
کنار دریا خضر نے مجھ سے کہا بہ انداز
مجرمانہ
سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ
سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایان
خانقاہی
انہیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگ آستانہ
انہیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگ آستانہ
غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمز
آشکارا
زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے، فضائے گردوں ہے بے کرانہ
زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے، فضائے گردوں ہے بے کرانہ
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ
خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
مری اسیری پہ شاخ گل نے یہ کہہ کے صیاد کو
رلایا
کہ ایسے پرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ
کہ ایسے پرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ
٭٭٭
حاجت نہیں اے خطہ گل شرح و بیاں کی
تصویر ہمارے دل پر خوں کی ہے لالہ
تصویر ہمارے دل پر خوں کی ہے لالہ
تقدیر ہے اک نام مکافات عمل کا
دیتے ہیں یہ پیغام خدایان ہمالہ
دیتے ہیں یہ پیغام خدایان ہمالہ
سرما کی ہواؤں میں ہے عریاں بدن اس کا
دیتا ہے ہنر جس کا امیروں کو دوشالہ
دیتا ہے ہنر جس کا امیروں کو دوشالہ
امید نہ رکھ دولت دنیا سے وفا کی
رم اس کی طبیعت میں ہے مانند غزالہ
رم اس کی طبیعت میں ہے مانند غزالہ
٭٭٭
خود آگاہی نے سکھلا دی ہے جس کو تن
فراموشی
حرام آئی ہے اس مرد مجاہد پر زرہ پوشی
حرام آئی ہے اس مرد مجاہد پر زرہ پوشی
٭٭٭
آں عزم بلند آور آں سوز جگر آور
شمشیر پدر خواہی بازوے پدر آور
شمشیر پدر خواہی بازوے پدر آور
٭٭٭
غریب شہر ہوں میں، سن تو لے مری فریاد
کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قیامتیں آباد
کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قیامتیں آباد
مری نوائے غم آلود ہے متاع عزیز
جہاں میں عام نہیں دولت دل ناشاد
جہاں میں عام نہیں دولت دل ناشاد
گلہ ہے مجھ کو زمانے کی کور ذوقی سے
سمجھتا ہے مری محنت کو محنت فرہاد
سمجھتا ہے مری محنت کو محنت فرہاد
صدائے تیشہ کہ بر سنگ میخورد دگر است
خبر بگیر کہ آواز تیشہ و جگر است
خبر بگیر کہ آواز تیشہ و جگر است
٭٭٭
تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہ پرویز
دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات
دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات
مجھ سے فرمایا کہ لے، اور شہنشاہی کر
حسن تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات
حسن تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات
میں تو اس بار امانت کو اٹھاتا سر دوش
کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات
کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات
غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات!
جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات!
٭٭٭
No comments:
Post a Comment