سرور
بارہ بنکوی
اردو کے ممتاز شاعر، فلم
ساز اور ہدایت کار جناب سرور بارہ بنکوی کااصل نام سعید الرحمن تھا۔ وہ 30 جنوری
1919ء کو بارہ بنکی (یو پی۔بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے
کراچی اور پھر ڈھاکا میں سکونت اختیار کی۔جہاں انہوں نے فلم تنہا کے مکالمے لکھ کر
اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا اور پھرچندا، تلاش، ناچ گھر، کاجل ، بہانہ، ملن، نواب
سراج الدولہ، تم میرے ہو، آخری اسٹیشن،چاند اور چاندنی، احساس، سونے ندیا جاگے
پانی اور کئی دیگر فلموں کے نغمات لکھے جو بہت مقبول ہوئے اسی
دوران انہوں نے تین فلمیں آخری اسٹیشن، تم میرے ہو اور آشنا پروڈیوس اور ڈائریکٹ
بھی کیں۔ آخری دنوں میں وہ بنگلہ دیش کے اشتراک سے ایک فلم ’’کیمپ 333‘‘ بنانا
چاہتے تھے۔ وہ اسی سلسلے میں ڈھاکا گئے ہوئے تھے کہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث 3
اپریل 1980ء کو ڈھاکا میں وفات پاگئے۔ ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا جہاں وہ
سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ سروربارہ بنکوی کے دو شعری مجموعے سنگ
آفتاب اور سوزگیتی کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔
زندگی
میں لگ چکا تھا غم کا سرمایہ بہت
اس لئے شاید گنوایا ہم نے کم، پایا بہت
اس لئے شاید گنوایا ہم نے کم، پایا بہت
راندہِ
ہر فصلِ گُل ہم کب نہ تھے، جو اب ہوئے
سُنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت
سُنتے ہیں یاروں کو یہ موسم بھی راس آیا بہت
وہ
قریب آنا بھی چاہے اور گُریزاں بھی رہے
اُسکا یہ پِندارِ محبُوبی مُجھے بھایا بہت
اُسکا یہ پِندارِ محبُوبی مُجھے بھایا بہت
کِتنی
یادیں، کِتنے منظر آبدِیدہ ہوگئے
جب بھی تنہا آئینہ دیکھا، وہ یاد آیا بہت
جب بھی تنہا آئینہ دیکھا، وہ یاد آیا بہت
سُرُور
بارہ بنکوی
No comments:
Post a Comment