الف ۔ کی کہاوتیں
(۱۴) اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں دِکھتا، دوسروں کی آنکھ کا تنکا دکھائی دے جاتا ہے:
شہتیر یعنی درخت کا کٹا ہوا تَنا۔
مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی چھوٹی موٹی غلطیاں
تو بہت آسانی سے دکھائی دے جاتی ہیں
لیکن اپنی بڑی سے بڑی غلطی نظر نہیں
آتی۔
(۱۵) اپنے منہ میاں
مٹّھو بننا:
یعنی خودستائی، اپنے منھ سے اپنی تعریف
کرنا۔ خود کو بڑھا چڑھا کر بتانا۔ بر خود غلط ہونا۔
(۱۶) اپنا مارے گا تو پھر چھاؤں میں
بٹھائے گا :
چھاؤں یعنی سایہ۔ اگر کوئی اپنا خفاہوتواس کے دل میں قربت کی وجہ سے پھر بھی تھوڑی بہت ہمدردی ہوتی
ہے جب کہ غیر سے ایسی اُمید نہیں ہوتی۔
(۱۷) اپنا سکّہ کھوٹا تو پرکھنے والے کو کیا دوش :
اگر کوئی شخص کھوٹے سکّے کو لینے سے
انکار کر دے تو اُس کا کوئی قصور نہیں۔ اسی
طرح اگر اپنا موقف کمزور ہو یا اپنا آدمی ناکارہ تو اُسے مسترد کرنے پر دُنیا کو
غلط نہیں کہا جا سکتا۔
(۱۸) اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ:
یعنی من مانی کرنا۔
ڈفلی ایسی چھوٹی ڈھولکی کو کہتے ہیں
جس پر ایک ہی طرف کھال چڑھی ہوتی ہے۔ یہ کہاوت تب کہی جاتی ہے جب ہر شخص
اپنی اپنی کہہ رہا ہو اَور کوئی کسی کی سننے کو تیار نہ ہو۔
(۱۹) اپنی داڑھی سب پہلے بُجھاتے ہیں :
اپنی فکر آدمی پہلے کرتا ہے اور اس
کے بعد ہی کسی اور کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ کہاوت اسی حقیقت کو ایک دلچسپ مثال سے
واضح کر رہی ہے کہ اگر کئی اشخاص کی داڑھیوں
میں ایک ساتھ آگ لگ جائے تو ہر ایک
اپنی داڑھی کی فکر پہلے کرے گا۔
(۲۰) اپنی گانٹھ نہ ہو پیسا تو پرایا آسرا کیسا :
یعنی اگر آدمی میں خود کوئی اہلیت نہیں ہے تو وہ دوسروں پر کیسے بھروسا کر سکتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات
ہے کہ اپنے ہاتھ خالی ہوں اور دوسروں کے بل بوتے پر کام کی اُمید کی جائے۔
No comments:
Post a Comment