الف ۔ کی کہاوتیں
(۲۱) اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا لی :
یعنی اپنی رائے کی پخ میں دوسروں
کو مطلق نظر انداز کر دیا اور اپنے طور پر ہی کام کیا۔ اس صورت حال سے آپس
میں نفاق و افتراق بڑھنے کا بہت امکان
ہوتا ہے لہٰذا اس سے پرہیز بہتر ہے۔
(۲۲) اپنی گئی کا دُکھ نہیں، جیٹھ کی رَہی کا دُکھ
ہے :
یہ کہاوت ایسے شخص کے بارے میں کہی جاتی ہے جس کو اپنے نقصان کی اتنی فکر نہیں ہوتی جتنی اس کی کہ دوسروں کا نقصان کیوں
نہیں ہو رہا ہے۔ ایک کہانی اس
کہاوت سے منسوب ہے۔ ایک عورت کی گائے کھو گئی۔ اڑوس پڑوس کے لوگ جب اس سے ہمدردی
کا اظہار کرتے تو وہ کہتی کہ میری گئی سو گئی لیکن میرے جیٹھ کی تو ایک بھی نہ
کھوئی۔ گویا جیٹھ کا نقصان اپنی گائے کی واپسی سے زیادہ اس کے لئے اطمینان اور
سکون کا سامان پیدا کرتا۔
(۲۳) اپنی موت اپنے ہاتھوں بلائی
:
یعنی اپنا نقصان آپ ہی کیا۔ اسی معنی میں ’’
اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لی‘‘ بھی
کہتے ہیں۔
(۲۴) اپنے گھر میں
کُتا بھی شیر ہوتا ہے :
اپنے دوستوں
اور حامیوں کی پشت پناہی حاصل ہو
تو کمزور شخص بھی خود کو مضبوط اور طاقت ور محسوس کرتا ہے اور ایسا ہی ظاہر بھی
کرتا ہے۔
(۲۵) اپنی عزت اپنے ہاتھ :
آدمی کو خود اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہئے اور
دوسروں سے توقع نہیں کرنی چاہئے کہ وہ اس کی عزت کا پاس کریں گے۔ وہ
ایسی بات کیوں کرے کہ لوگوں میں بے
عزتی کا باعث ہو۔
(۲۶) اپنا اُلوسیدھا کیا :
یعنی اپنا مطلب نکال لیا اور دوسرے کے نفع نقصان
کی فکر نہ کی۔
(۲۷) اپنی ٹانگ کھولئے، آپ ہی لاجوں مریے :
راز کی باتیں
خود ہی عام کر دی جائیں تو شرم بھی خود ہی اُٹھانی پڑتی ہے۔ نہ کسی کو دَرونِ خانہ راز بتائے جائیں اور نہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔
No comments:
Post a Comment