ب ۔ کی کہاوتیں
( ۸۰) بھاڑے کا ٹٹو ہے :
بھاڑا یعنی کرایہ، ٹٹو یعنی چھوٹے قد کا
گھوڑا۔ کم اصل آدمی جو پیسے لے کر چھوٹا موٹا کام کر دے بھاڑے کا ٹٹو کہا جائے گا۔
بھاڑے اور ٹٹو کہنے میں تحقیر کا عنصر شامل ہے۔
(۸۱) بھینس کے آگے بین بجانا
:
یعنی نا
اہل آدمی سے دانشمندی کی بات کرناایسا ہی ہے جیسے کوئی بھینس کے آگے بین بجائے اور
اس سے داد کی اُمید رکھے۔ اسی معنی میں ’’ بھینس کے آگے بین بجائے، بھینس کھڑی
پگرائے‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دیہاتی زبان میں پگرانا بغیر سمجھے
بوجھے سر ہلانے کو کہتے ہیں۔
( ۸۲) بھیک مانگے، آنکھ دکھاوے :
یعنی
حال تو یہ ہے کہ خود بھیک مانگتا ہے لیکن دماغ ایسے ہیں کہ لوگوں سے
رعونت سے پیش آتا ہے۔ یہ کہاوت کم حیثیت لیکن بد دماغ شخص کے لئے کہی جاتی ہے۔
( ۸۳) بھونی مچھلی جل میں پڑی :
بھنی ہوئی مچھلی پانی میں گر جائے
تو کھانے لائق نہیں رہتی۔ کہاوت کا یہی مطلب ہے کہ اچھا خاصہ کام ہو گیا تھا
لیکن ذرا سی خرابی یا غفلت نے اسے بگاڑ دیا۔
( ۸۴) بھان متی کا سوانگ
:
سوانگ
یعنی بہروپ،بناوٹی چہرہ۔بھان متی ایک فرضی کردار ہے۔کہاوت کا مطلب ہے فضول اور از
کار رفتہ بہروپ اور تماشہ۔ ایسا عام طور پر لوگوں کو فریب دینے کے لئے کیا
جاتا ہے۔
(۸۵) بھُس میں چنگاری ڈال
جمالوؔ دور کھڑی :
اناج کاٹ کر اس کے دانے نکال لئے جائیں تو
بھُوسا بچ رہتا ہے۔ بھُس اسی بھوسے کا مخفف ہے۔جمالوؔ ایک فرضی عورت ہے جس
کی فطرت میں شرارت اور فتنہ پردازی ہے۔ جب کوئی شخص کوئی فتنہ دوسروں
کے نقصان سے بے نیاز ہو کر صرف تماشہ دیکھنے کی خاطر کھڑا کر دے تو یہ کہاوت بولی
جاتی ہے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
No comments:
Post a Comment