آ۔ کی
کہاوتیں
( ۲۴
) آٹے کا چراغ، اندر رکھو تو چوہا کھائے،باہر رکھو تو کوّا لے جائے
:
اگر
گندھے ہوئے آٹے کا دِِیا(چراغ) بنایا جائے تو گھر کے باہر اسے کوّا لے اُڑے گا اور
گھر کے اندر چوہا کھا جائے گا۔گویا ہر طرح مشکل ہی مشکل ہو گی۔ یہ کہاوت
ایسے وقت بولی جاتی ہے جب سہولت کی کوئی صورت نظر نہ آئے۔
( ۲۵ ) آٹے کے ساتھ گھن بھی پستا ہے :
گھُن
ان کیڑوں کو کہتے ہیں جو گیہوں میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگر
آٹا پیسا جائے تو ساتھ ہی گھن بھی پس جائے گا۔ اس حوالے سے مطلب یہ ہوا کہ بڑے
آدمی کا نقصان ہو تو اس کے ساتھ چھوٹا بھی نقصان اٹھاتا ہے۔
( ۲۶
) آٹھوں گانٹھ کُمیت :
چالاک اور دنیا ساز
آدمی کے لئے کہا جاتا ہے۔ کہاوت کی وجہ تسمیہ معلوم نہ ہو سکی کہ آٹھوں
گانٹھ کمیت کس رعایت سے کہا گیا ہے۔
( ۲۷ ) آج کے تھُپے آج ہی نہیں جلتے :
یہاں گوبر کے تھُپے ہوئے اُپلوں کی جانب اشارہ ہے
کہ تازہ اُپلے جلائے نہیں جا سکتے۔ انہیں سُکھانا ضروری ہے۔ یعنی ہر
کام میں صبر ضروری ہے، ہوتے ہوتے ہی کام ہوتا ہے۔
(۲۸) آج مرے کل دوسرا دن :
دنیا عموماًکسی شخص کو اُس کی زندگی میں
ہی یاد کرتی ہے۔ مرنے کے بعد شاذ و نادر ہی کوئی اُسے یاد کرتا ہے۔کسی
کے مر جانے سے دنیا کا کوئی کام نہیں رکتا چنانچہ کوئی وفات پا جائے
تو کل کا دِن عام دنوں کی طرح ہی ایک دن ہو گا۔
(۲۹ ) آج وہ کل ہماری باری ہے :
یعنی موت سے
کسی کو مفر نہیں ہے۔ یہ ایک شعر کا دوسرا مصرع ہے:
موت سے کس کو رُستگاری
ہے ٭٭٭٭ آج وہ کل ہماری باری ہے
( ۳۰) آدھی روٹی، ڈیڑھ پا شکر :
کلو گرام سے پہلے تولنے کے لئے بر صغیر
ہند و پاک میں سیر استعمال ہوتا تھا۔ ایک کلو میں دو سیرسے ذرا سازیادہ وزن
ہوتا ہے اور ایک سیر کے چار پاؤ ہوتے تھے۔ پا اِسی کا مخفف ہے۔ ڈیڑھ پا یعنی
ڈیڑھ پاؤ۔ مطلب یہ ہے کہ تماشا تو دیکھو کہ آدھی روٹی کھانے میں ڈیڑھ پاؤ
شکر استعمال ہو رہی ہے یعنی اصل چیز تو اتنی کم ہے لیکن اس پر اوپری خرچ اس قدر
زیادہ کیا جا رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment