ب ۔ کی کہاوتیں
(۳۹) بغلی گھو نسا :
دوست سے مدد اور سہارے کی امید کی جاتی
ہے۔ اس مناسبت سے ایسا دوست جو فریب کار اور دغا باز ہو بغلی گھُونسا کہلاتا
ہے۔
( ۴۰) بغل میں بچہ شہر میں
ڈھنڈورا :
ڈھنڈورا یعنی مسلسل ڈھولک
بجانا۔پرانے زمانے میں جب ٹی وی، لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کچھ نہیں تھا تو
شہر کے لوگوں کو ڈھنڈورے کے ذریعہ سرکاری خبریں پہنچائی جاتی
تھیں۔ ڈھنڈورا چوراہے پر پیٹا جاتا تھا اور لوگ جمع ہو کر ڈھنڈورچی سے سرکاری
اعلان سن لیا کرتے تھے۔ جب کوئی چیز آنکھوں کے سامنے ہو لیکن اس کی تلاش
چاروں طرف زور و شور سے کی جا رہی ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۴۱) بکری کا سا منھ چلتا ہے
:
بکری
مستقل کھاتی رہتی ہے۔یہ کہاوت ایسے آدمی کے بارے میں کہی جاتی ہے جو ہر وقت
کھاتا رہتا ہو۔
( ۴۲) بکرے کی ماں آخر کب تک خیر
منائے گی :
یعنی
ایک نہ ایک دن تو بکرے کو ذبح ہونا ہی ہے۔بکری اپنے بچہ کوکب تک محفوظ رکھ سکتی
ہے۔ کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ برا آدمی آخر کار اپنے انجام کو ضرور پہنچتا ہے۔
( ۴۳) بگلا بھگت :
یعنی
مکار،چالاک،دھوکہ باز۔ بگلا سفید ہوتا ہے، اس مناسبت سے بگلا بھگت وہ شخص ہو گاجو
اپنی سفید پوشی سے لوگوں کو دھوکا دے۔
(۴۴) بگڑا شاعر مرثیہ گو :
مرثیہ گوئی کو اُردو شاعری میں
واللہ اعلم کیوں بڑا فن نہیں سمجھا جاتا ہے۔ مرثیہ گو کے بارے
میں قدرے تحقیر سے کہا جاتا ہے کہ شاعری پر قدرت نہیں ہے اس لئے مرثیہ
گوئی پر اکتفا کر رہے ہیں۔ یعنی شاعر بگڑ کر مرثیہ گو ہو گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment