ساغر وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر صدیقی
اِس اندھیروں کے عہد میں ساغر
کیا کرے گا کوئی اجالوں کو
ساغر صدیقی
یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں عرفانِ بہاراں سے
وہ پھولوں کو نئے جذبات کی تعلیم دیتے ہیں
ساغر صدیقی
زندگی کی بات ساغر کیا کہیں
اِک تمنا تھی تقاضہ بن گئی
ساغر
بادشاہت کا اعتبار ہے کیا ؟
احتیاطا فقیر رہتا ہوں
!ہمارے چاک گریباں سے کھیلنے والو
ہمیں بہار کا سورج سلام کرتا ہے
ساغر صدیقی
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان بنا پھرتا ہے
دور تک کوئی ستارہ ہے نہ جگنو
مرگ ِ اُمید کے آثار نظر آتے ہیں
ساغر صدیقی
یہ مسجد اور مندر بھی کیا غضب کی جگہیں ہیں
جہاں غریب ہاہر اور امیر اندر بھیک مانگتا ہے
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
عصائے مرگ تھامے زندگانی
میری سانسوں کا ریوڑ ہانکتی ہے
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
فیض
گلوں میں رنگ بھرے یا نو بہار چلے
چلے بھی آو کے گلشن کا کاروبار چلے
فیض
No comments:
Post a Comment