کعبے کی قسم عرش پہ محشر کی گھڑی تھی
اِک طفل کی جاں ، موج طلاطم سے لڑی تھی
کل شام سے جنت میں بھی ماتم کا سماں ہے
پانی کے کنارے پہ کوئی لاش پڑی تھی
جب غرض ہوا تب پیار کیا ، جب وقف ملا تب یاد کیا
اب اور حقیقت کیا لکھوں ، اس دور کے مخلص لوگوں کے
پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر پڑا
خیرات لے کر مجھ سے چلا تک نہیں گیا
غریب ماں اپنے بچوں کو بڑے پیار سے یوں مناتی ہے
پھر بنالیں گے نئے کپڑے یہ عید تو ہر سال آتی ہے
نوک، مژہ پہ جن کو رہے اشک کر بلا
پائیں گے حشر میں وہ شفاعت رسول کی
ساغر صدیقی
پیتل کی بالیوں میں بیٹی بیاہ دی
اور باپ کام کرتا تھا سونے کی کان میں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشا ئے ہل کرم دیکھتے ہین
مرزا غالب
تمہاری یاد خزانہ بھی ہے اثاثہ بھی
جو تم بھولوں تو پھر سے فقیر ہو جاؤں
عجب ہے زندگی کی قید میں اس شہر کا انسان
رہائی مانگتا ہے اور رہا ہونے سے ڈرتا ہے
شہر کی اِک گلی میں کانپتا معصوم سا بچہ
بڑوں کی دیکھ کر لاشیں بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزرجانے کی جلدی تھی
وہ خواب ہے تو میری آنکھ میں بھی آئے گا
ہر ایک پنچھی کا ہوتا ہے ایک ٹھکا نہ بھی
دیکھتا ہوں کہ کوئی پرسان نہیں غریبوں کا
سوچتا ہوں کہ مجھے جینے کا حق ہے بھی کہ نہٰں
دو گز زمین مل ہی گئی مجھ غریب کو
مرنے کے بعد میں بھی زمین دار ہو گیا
نہ اڑا یوں ٹھوکروں سے میری خاکِ قبر ظالم
یہی ایک رہ گئی ہے میری پیار کی نشانی
تجھے پہلے ہی کہا تھا ہے جہاں سرائے فانی
دلِ بد نصیب تو نے میری بات ہی نہ مانی
یہ عنایتین غضب کی یہ بلا کی مہر بانی
میری خیریت بھی پوچھی کسی اور کی زبانی
چراغ، طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھا ؤ بڑا اندھیرا ہے
شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے
یہ مسکرتے ہوئی چیز مسکرا کہ پلا
سرور چیز کی مقدار پہ نہیں موقوف
شراب کم ہے تو ساقی ملا کہ پلا
یہ جام یہ سُبو ، یہ تصور کی چاندنی
ساقی کہاں مدام زرا آنکھ تو لگا
ساغر صدیقی
میکدے کی حدود میں ہونگے
کیا بتائیں پتا فقیروں کا
ساغر صدیقی
ضرور توڑدیتی ہے غرورِ بے نیازی کو
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
شراب و شعر کے دریا میں ڈوب کر ساغر
سرور و کیف کے دھاروں سے کھل سکتا ہوں
ساغر صدیقی
اللہ رے اُس چشم عنایات کا جادو
تا عمر رہا حسن ملاقات کا جادو
آنکھوں میں رواں کوثر و تسنیم کے منتر
زُلفوں میں نہاں شام خرابات کا جادو
اٹھا کر چوم لی ہیں چند مرجھائی کلیاں
نہ تم آئے تو یوں جشنِ بہاراکر لیا میں نے
ابھی تک بے کفن سی ہے میری وحشت کی عُریانی
یہ کس امید پر گھر کو بیاباں کر لیا مین نے
ساغر صدیقی
ہم ساحر اقلیم سخن بن گئے ساغر
اس ڈھب سے جگایا ہے خیالات کا جادو
ساغر صدیقی
ساقی نے مسکراکے گلے سے لگا لیے
وہ آدمی جو اپنی خطاؤں سے ڈر گئے
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment