ایک دن ساقی یہی ٹوٹے ہوئے جام و سبو
میکدے ترتیب دیں گے تشنگی سے روٹھ کر
ساغر صدیقی
اسے نہ جیت سکے گا غم زمانہ اب
جو کائنات ترے در پہ ہار دی ہم نے
ساغر صدیقی
جب وہ مھو شباب ہوتے ہیں
آئینے بھی رُباب ہوتے ہیں
اُن تبسم فروش آنکھوں سے
سوکھے پتے گلاب ہوتے ہیں
ساغر صدیقی
مزاج شمع میں کچھ ذوق پروانی بھی ہوتا ہے
کسی کا نا اس محفل میں دیوانہ بھی ہوتا ہے
ساغر صدیقی
کاٹی جہاں تصور جاناں میں ایک شب
کہتے ہیں لوگ اس جگہ بت خانے بن گئے
ساغر صدیقی
تشنگی تشنگی ارے توبہ
زُلف لہراؑ وت نازک ہے
ساغر صدیقی
مری اُجڑی سی آنکھوں میں ساغر
زمانے کے رنج و الم سورہے ہیں
ساغر صدیقی
کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیاء ہوتا
میں بھی تیرے گلشن میں پھولوں کا خدا ہوتا
ساغر صدیقی
اللہ ان کے نقش کفِ پا کی خیر ہو
زروں کو دے گئے جو مہ و کہکشاں کی بھیک
ساغر صدیقی
مری اجڑی اُجڑی سی آنکھوں میں ساغر
زمانے کے رنج و الم سورہے ہیں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment