چھلکے ہوئے تھے جام پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں اہنی اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر صدیقی
یہ زندگی بھی عجیب ہے نا صاحب
اک دن مرنے کے لیے پوری زندگی جینی پڑتی ہے
تمہارا ذکر اگر دن میں بھول جاؤ تو
قضا سمجھ کہ راتوں کو جاگ لیتا ہوں
باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کر کے
خود بھی رویا وہ بہت ہم سے کنارہ کر کے
ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا ہی نہیں
دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارہ کر کے
سرِ محفل جو بولوں تو زمانے کو کھٹکتا ہوں
رہوں میں چپ تو اندر کی بغاوت مار دیتی ہے
حیف اس چارہ گر وقت کی قسمت ساغر
جس کو ہر گام پہ تقدیر کے بیمار ملیں
ساغر صدیقی
چھلک ساغر سے پیمانہ مست ہوگیا
دیکھتے دیکھتے میخانہ مست ہوگیا
واللہ ایک جام دستِ ساقی سے پی کر
نامی پاگل دیوانہ مست ہوگیا
زلف نے بل کوئی کھایا تو برا مان گیئے
چاند بدلی میں چھپایا تو برا مان گئے
اور تو سب کو پلاتے رہے مست آنکھوں سے
ہاتھ ساغر نے بڑھایا تو برا مان گئے
ساغر صدیقی
سوچتے ہیں حسرتوں کے موڑ پر شام و سحر
جائیں گے ساغر کہاں ان کی گلی سے روٹھ کر
ساغر صدیقی
تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment