اب تو آواز بھی دو گے تو نہیں آئیں گے
ٹوٹنے والے قیقمت کی انا رکھتے ہیں
ہوں نہ ساغر جس میں سنگ و میل کی پابندیاں
منزلوں تک ایک ایسی رہگزر بھی چاہئے
ساغر صدیقی
ہائے آدابِ محبت کے تقاضے ساغر
لَب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
ساغر صدیقی
آج ہم بھی تِری وفائں پر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو
ساغر صدیقی
یاد رکھنا ہاری تُربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سوجاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
صاغر صدیقی
فقیہہ شہر نے تہمت لگائی ہے ساغر
یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے
ساغر صدیقی
عشق بہروپیا ہے اے ساغر
رُوپ نے سادگی کو بیچ دیا
ساغر سدیقی
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں ساغر کو خدا یاد نہیں
ساغرصدیقی
مدتوں سے ہے سرد مے خانہ
دیر سے مے گُسار جلتے ہیں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment