ج۔کی
کہاوتیں
(۱۳) جتنا بِینو اتنی ہی
کرکری (یا کرکل )نکلتی ہے :
بازار سے گیہوں، چاول وغیرہ لا کر اس میں سے کنکر، تنکے وغیرہ
بینے جاتے ہیں اور اس کو قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔ اس غلاظت کو
کرکری یا کرکل کہتے ہیں ۔ غلہ کو جتنا بینا جائے اُتنی ہی اس میں
سے کرکل نکلے چلی جاتی ہے۔ ایک مناسب وقت کے بعد یہ کام ختم کر دینا چاہئے۔
اسی طرح کسی شخص سے متعلق کوئی تحقیق کی جائے تو جتنے زیادہ آدمیوں سے پوچھا
جائے گا اتنی ہی برائیاں ملنے کا امکان ہے۔ علیٰ ہٰذا لقیاس۔
( ۱۴ ) جتنی دیگ اُتنی
کھرچن :
کام میں نفع اصل مال کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ زیادہ مال
لگایا جائے گا یا زیادہ محنت کی جائے گی تو فائدہ بھی اسی مناسبت سے زیادہ ہو
گا۔کہاوت اسی جانب اشارہ کر رہی ہے
( ۱۵ ) جتنے دم اُتنے غم
:
قانون قدرت ہے کہ جتنی لمبی زندگی ہو گی اتنے ہی زیادہ رنج
اور مسائل بھی ہوں گے۔
( ۱۶ ) جتنے منھ اتنی باتیں
:
جتنے لوگ ہوتے ہیں اتنی ہی طرح کی باتیں سننے میں آتی
ہیں کیونکہ ہر شخص کی الگ رائے ہوتی ہے۔
( ۱۷ ) جدھر رَب، اُدھر
سب :
آدمی ہر اُس فیصلہ کو قبول کرنے پر مجبور ہے جو قدرت کی
جانب سے پیش آتا ہے۔ قانون قدرت سے لڑ کر بجز نقصان کے اَور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
No comments:
Post a Comment