ج۔کی
کہاوتیں
( ۶ ) جاٹ کی بیٹی برہمن کے
گھر آئی :
ہندوؤں میں
جاٹ ذات نیچی اور برہمن اونچی مانی جاتی ہے۔ شادیاں اپنی ذات میں
ہی ہوتی ہیں۔ چنانچہ کسی جاٹ کی بیٹی کا برہمن کی بہو بن جانا بہت بڑا سانحہ
ہے۔کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ نہایت کم حیثیت آدمی کو خوش قسمتی سے بڑے اور با عزت
لوگوں کی صحبت نصیب ہوئی۔
( ۷ ) جان جائے پر آن نہ
جائے :
شریف لوگوں کو اپنی عزت جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔جان بھلے ہی چلی
جائے لیکن عزت ہر حال میں محفوظ رہنی چاہئے۔
(۸) جب چنے تھے تب دانت نہ
تھے، اب دانت ہیں تو چنے نہیں :
زندگی میں ہمیشہ دن ایک سے نہیں رہتے۔ اس بات کو ایک
مثال واضح کر رہی ہے کہ بچپن میں دانت نہیں تھے تو چنے میسر تھے اور
اب جوانی میں منھ میں دانت ہیں تو چنے پاس نہیں ہیں۔
(۹) جتنا گُڑ ڈالو اتنا ہی
میٹھا :
گُڑ یعنی کچی شکر۔ کوئی چیز بھی ہو اُس میں جس قدر گڑ
ڈا لا جائے اُسی قدر وہ میٹھی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہر کام میں جتنی
زیادہ محنت کی جائے اس میں فائدہ اسی مناسبت سے ہو گا۔ محل استعمال ظاہر ہے۔
( ۱۰ ) جتنی دیگ اُتنی
کھُرچن :
چاول کی دیگ زیادہ پک جائے تو جو چاول جل کر اس کی تلی سے لگ جاتے ہیں ان
کو کھرچن کہتے ہیں۔ کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ کام جس قدر بڑا ہو گا اسی مناسبت سے اس
میں خرابی ہو سکتی ہے۔
( ۱۱) جتنا اوپر اُتنا ہی نیچے
ہے :
یعنی یہ شخص جس قدر ظاہر میں سیدھا سادا نظر آ رہا ہے اسی قدر باطن میں
یہ تیز اور چالاک ہے۔
( ۱۲) جتنی چادر ہو اتنے
پانوں پھیلاؤ :
یعنی اپنی حیثیت دیکھ کر
خرچ کرو اور فضول خرچی سے بچو۔ بے جا اصراف میں نقصان ہی نقصان ہے۔
No comments:
Post a Comment