ج ۔ کی
کہاوتیں
(۱۸) جدھر مولا،اُدھر آصف
الدولہ :
اَودھ کے نواب آصف الدولہ
اپنی داد و دہش کے لئے بہت مشہور تھے۔ ان کے لئے ایک اور کہاوت مستعمل ہے کہ ’’جسے
نہ دے مولا، اُسے دے آصف الدولہ۔‘‘ اِس کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ آصف الدولہ بھی
اللہ کی مرضی کا پابند ہے اور جتنا کسی کی قسمت میں لکھا ہے اس سے زیادہ وہ
بھی نہیں دے سکتا۔ اس سلسلہ میں ایک حکایت مشہور ہے کہ ایک غریب آدمی
دربار میں حاضر ہوا اور نواب صاحب سے مدد کا خواستگار ہوا۔انھوں نے
حکم دیا کہ ایک تھیلی میں روپے اور دوسری میں پیسے بھر کر اس آدمی کے
سامنے رکھ دئے جائیں۔ اُس شخص سے ایک تھیلی منتخب کرنے کو کہا گیا۔اس نے جو تھیلی
چُنی اس میں پیسے تھے۔نواب صاحب نے کہا کہ ’’بھائی،یہ تمھاری قسمت کہ تم کو
پیسے ملے۔ میں کیا کر سکتا ہوں۔جدھر مولا،اُدھر آصف الدولہ۔‘‘
(۱۹) جدھر جلتا دیکھیں
اُدھر تاپیں :
کچھ لوگ کوئی کام تب ہی کرتے ہیں جب اس میں ان
کے لئے فائدہ کی کوئی صورت ہو۔ ان کی مثال ایسے شخص کی ہے جو وہیں
ہاتھ تاپنے پہنچ جاتا ہے جدھر آگ جلتی ہوئی دیکھتا ہے چاہے وہ کسی کا گھر ہی
کیوں نہ ہو۔
( ۲۰) جس کا کھائے اسی کا
بجائے :
بجائے یعنی ڈھول بجائے۔ جو احسان کرے اسی کی تعریف اور
طرفداری بھی کی جاتی ہے۔ اسی معنی میں ’’ جس کا کھائے اُسی کا گائے‘‘ بھی کہا جاتا
ہے۔
( ۲۱) جس کو نہ دے مولا، اُسے
دے آصف الدولہ :
لکھنؤ کے بادشاہ نواب آصف الدولہ نہایت مخیر اور فیاض شخص تھے۔ یہ
کہاوت اسی حقیقت کا اعتراف ہے کہ نواب آصف الدولہ کے دربار سے کوئی خالی ہاتھ واپس
نہیں آتا۔
( ۲۲ ) جس کے پاس نہیں
پیسا، وہ بھلا مانس کیسا :
دُنیا میں امیروں
کی سب عزت کرتے ہیں اور غریب کو کوئی نہیں پوچھتا اور دُنیا اُس
کو بھلا مانس بھی ماننے سے انکار کرتی ہے۔
No comments:
Post a Comment