وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت
ہے ٭ کبھی ہم
اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت
لیکن ٭ دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
ہم نے مانا کہ کچھ نہیں
غالبؔ ٭ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
یہ لاش بے کف اسدِؔ خستہ جاں کی
ہے ٭ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
ہوئے مر کے ہم جو رُسوا،ہوئے کیوں نہ غرقِ
دریا ٭ نہ کبھی
جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
ہم کہاں کے دانا تھے،کس ہنر میں
یکتا تھے ٭ بے سبب ہوا غالب ؔ
دُشمن آسماں اپنا
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے
مری بات ٭ دے اَور
دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اَور
مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ ٭ اب عنا صر میں اعتدال کہاں
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جُز مرگ
علاج ٭ شمع ہر رنگ میں جلتی ہے
سحر ہونے تک
رنج کا خوگر ہواانساں تو مٹ جاتا ہے
رنج ٭ مشکلیں اتنی پڑیں
مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
No comments:
Post a Comment