د ۔ کی
کہاوتیں
(۱۳) دریا میں رہ کر
مگر مچھ سے بیر :
کسی مردم آزار شخص کے علاقہ میں رہتے ہوئے اُس سے دشمنی رکھنا
دانشمندی نہیں ہے۔ جس طرح دریا میں رہ کر مگر مچھ سے دشمنی میں
خطرہ ہے اسی طرح ظالم آدمی کسی وقت بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
( ۱۴ ) در کارِ خیر حاجتِ ہیچ استخارہ نیست :
یعنی نیک کام میں کسی استخارہ کی حاجت نہیں
ہوتی۔ استخارہ وہ دُعا ہے جو اہم کام کرنے سے پہلے کچھ لوگ مانگتے ہیں
کہ کام کیا جائے یا نہیں اور کیا جائے تو کس طرح؟ کچھ لوگ دو رکعت
نماز پڑھ کر اس اُمید میں سو جاتے ہیں کہ خواب میں کوئی اشارہ ملے گا۔
کچھ لوگ آنکھ بند کر کے قرآن پاک کے کسی صفحہ پر انگلی رکھ کر متعلقہ عبارت سے
اشارہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ نیک کام کا انجام تو اچھا
ہی ہوتا ہے اس لئے اس میں فکر کی کیا بات ہے؟
( ۱۵ ) دروغِ مصلحت آمیز
:
یعنی وہ جھوٹ جو کسی مصلحت
سے بولا جائے۔ یہ جھوٹ تو ہے لیکن چونکہ اس کا مقصد بھلائی ہے اس لئے یہ برائی میں
شمار نہیں ہوتا۔
(۱۶ ) در عمل کوش ہر چہ خواہی
پوش :
یعنی اپنے کام میں
محنت کرو چاہے کپڑے کیسے ہی پہنو۔ گویا اصل اہمیت کام کی ہے ظاہری لباس اور
نمود و نمائش کی نہیں ہے۔
(۱۷) دروازہ پر ہاتھی
جھولنا :
پرانے زمانے میں رئیس لوگ ہاتھی پالنے میں اپنی
شان سمجھتے تھے۔ ہاتھی مستی کے عالم میں جھومتا ہے جس کو ’’جھولنا‘‘ کہتے
ہیں۔ دروازہ پر ہاتھی جھولنا اَمارت کی نشانی ہے۔
(۱۸ ) دستِ خود دَہانِ
خود :
اپنا ہاتھ ہے اور اپنا
منھ، گویا کسی کی محتاجی نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment