د ۔ کی کہاوتیں
(۱ ) دانتوں پسینہ آنا :
ظاہر ہے کہ دانتوں میں
پسینہ نہیں آ سکتا ہے۔ یعنی یہ کہاوت نہایت مشکل کام سراانجام دینے کا
استعارہ ہے، اتنا مشکل کام کہ اسے کرنے سے دانتوں پسینہ آ جائے۔
( ۲ ) داشتہ آید بکار :
رکھی ہوئی چیز کام آ جاتی ہے۔ عام
تجربہ ہے کہ جس چیز کو بیکار جان کر پھینک دیا جائے اس کی ضرورت دوسرے ہی دن ہوتی
ہے۔ کہاوت اسی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
( ۳ ) دائی سے کیا پیٹ چھپانا
:
پہلے
زمانے میں زیادہ تر بچے دائی ( midwife ) کی مدد سے گھروں پر ہی پیدا ہوتے تھے۔ کام کی نوعیت
کے پیش نظر دائی سے کوئی بات چھپی نہیں ہوتی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ راز کی بات
ایسے شخص سے چھپانا بے سود و بے معنی ہے جس کو بالآخر وہ کام نمٹانا ہے۔
(۴) دال میں کالا ہونا :
دال میں کوئی کالی چیز گر جائے
تو اس کی سیاہی صاف نظر آ جاتی ہے۔ اسی نسبت سے یہ کہاوت کسی کام میں شک کے
اظہار کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۵ ) دانہ دانہ پر مہر لگی ہے
:
عقیدہ ہے کہ جوجس کی تقدیر میں ہے وہ اُسے مل کر
رہے گا گویا رزق کے دانے دانے پر اللہ نے اس کے نام کی مہر لگا دی ہے۔ اس کہاوت سے
ایک لطیفہ بھی منسوب ہے۔ ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ایک دن اپنے
آموں کے باغ کی سیر کر رہے تھے۔ مرزا غالبؔ بھی ہمراہ تھے۔ مرزا نوشہؔ
ہر درخت کے قریب جا کر آموں کو بہت غور سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر
دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ ظفرؔ نے دریافت کیا ’’مرزا نوشہ، کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
مرزا غالبؔ نے کہا ’’حضور! بزرگوں نے کہا ہے کہ دانے دانے پر کھانے والے کا
نام لکھا ہوتا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کسی آم پر میرا نام بھی لکھا
ہوا ہے کہ نہیں۔‘‘ بادشاہ یہ سن کر ہنس پڑے اور ملازم کو تاکید کی کہ
آموں کا ایک ٹوکرا مرزا نوشہ کے گھر پہنچا دیا جائے۔
No comments:
Post a Comment