گئی
رُت
پھر آ
گئی ہے، گئی رُت تمہیں خبر بھی نہیں
خبر
مجھے بھی نہیں تھی کہ رات پچھلے پہر
کسی
نے مجھ سے کہا جاگ اے دریدہ جگر
نشستہ
ہے سرِ دہلیز کوئی بام نشیں
بدل
چکا تھا سبھی کچھ تمہارے جاتے ہی
فلک
کا چاند، زمیں کے گلاب راکھ ہُوئے
وہ
راکھ خواب ہُوئی پھر وہ خواب راکھ ہُوئے
تم آ
سکو تو میں سمجھوں تمہارے آتے ہی
ہر
ایک نقش وہی آج بھی ہے جو کل تھا
یہ
راکھ خواب بنے خواب سے گلاب بنے
ہر اک
ستارۂ مژگاں سے ماہتاب بنے
برس
فراق کا جیسے وصال کا پل تھا
٭٭٭
No comments:
Post a Comment