کونسا
نام تجھے دُوں؟
یوں
بھی گزری ہے کہ جب درد میں ڈوبی ہوئی شام
گھول
دیتی ہے مری سوچ میں زہرِ ایّام
زرد
پڑ جاتا ہے جب شہرِ نظر کا مہتاب
خون
ہو جاتا ہے ہر ساعتِ بیدار کا خواب
ایسے
لمحوں میں عجب لطفِ دل آرام کے ساتھ
مہرباں
ہاتھ ترے ریشم و بلّور سے ہاتھ
اپنے
شانوں پہ مرے سر کو جھکا دیتے ہیں
جس
طرح سالِ اُمید سے بے بس چہرے
دیر
تک ڈوبنے والے کو صدا دیتے ہیں
یوں
بھی گزری ہے کہ جب قرب کی سرشاری میں
چمک
اُٹھتا ہے نگاہوں میں ترے حُسن کا شہر
نہ
غمِ دہر کی تلچھٹ نہ شبِ ہجر کا زہر
مجھ
کو ایسے میں اچانک ترا بے وجہ سکوت
کوئی
بے فیض نظر یا تلوار سی بات
ان
گنت درد کے رشتوں میں پرو دیتی ہے
اس
طرح سے کہ ہر آسودگی رو دیتی ہے
کونسا
نام تجھے دوں مرے ظالم محبوب
تُو
ہی قاتل مرا تُو ہی مسیحا میرا
No comments:
Post a Comment