وفا
پرست صلیبیں
وہ دن بھی یاد ہیں مجھ کو کہ جب مری دنیا
کہاں کے جسم، کہ سایوں کو بھی ترستی ہے
پھرا ہوں کوچہ بہ کوچہ متاعِ درد لئے
اگرچہ خلق مری سادگی پہ ہنستی ہے
سدا جلاتی رہے مجھے یہ محرومی
وہی تھا میں وہی صحرائے آرزو کے سراب
کوئی نہ تھا کہ میں جس کے حضور نذر کروں
یہ آنسوؤں کے چراغ، یہ شاعری کے گلاب
یہ زخم وہ تھے جو فن کے لئے چراغ بنے
مرا شریکِ سفر بس مرا شعور رہا
کسی سے کر نہ سکا دردِ نارسا کا گلہ
وہ روز و شب تھے کہ تنہائیوں سے چور رہا
رہِ طلب میں پھر اک یہ مقام بھی آیا
کہ دل گرفتہ ہے تُو میری زندگی کے لئے
میں دیکھتا ہوں کہ تیری اداس آنکھوں میں
وفا کی آنچ لئے ہیں عقیدتوں کے دیے
کسے عزیز نہ ہو گی تری طلب کی لگن
ہزار دل پہ پڑی ہو غمِ زمانہ کی دھول
کسے غرور نہ ہو گا اگر تری چاہت
کھِلائے دشتِ تمنّا میں التفات کے پھُول
٭٭٭
No comments:
Post a Comment