﷽
الجواب
حامدا و مصلیا
لیز کی شرعی حیثیت طویل الاجارۃ کی ہے یعنی
معتین مدت کے لیے کسی کو زمین وغیرہ اجارہ( کرایہ) پر دینا ۔ جس
میں عقد کرنے والوں نے یہ عقد اپنے لیے
کیا ہوتو دونوں میں سے
کسی ایک کے فوت ہو جانے سے یہ عقد ختم
ہوجاتا ہے ، بعد ازاں از ورثاء کو سرِنو دوبارہ عقد جدید کی ضرور ہوتی ہے ۔
لہذا
صورت مسؤلہ میں غلام نبی کے
انتقال ہو جانے کے بعد لیز ختم ہوکر مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگئی ہے ۔ اب مرحوم غلام بنی کے ورثاء کی مرضی ہے دوبارہ لیز پر دینا چاہتے
ہوں تو بھی دے سکتے ہیں اور فروخت کرنا چاہیں تو بھی تمام ورثا ء کے ما بین تقسیم کے بعد انہیں مکمل تصرف کا حق حاصل ہے ۔ تاہم مرحوم کے
ورثاء اگر حاجی صابر حسین پر فروخت کرنا چاہیں تو بھی کر سکتے ہیں ۔
نیز مرحوم کے وفات کے بعد جتنی رقم کرایہ کے طور پر ٹرسٹ اراکین کو
موصول ہوئی ہے وہ رقم محروم( غلام بنی )کا ترکہ ہے جسِے مرحوم کے ورثاء میں تقسیم کاجائے گا
۔
ارکین ٹرسٹ کو چاہئے کہ غلام بنی کے وفات ہونے کے بعد جتنی رقم انہوں نے وصول کی ہے ،اُسے
مرحوم کے ورثاء کو لوٹا دے دیں اور وفات سے پہلے وصول ہونے والی رقم وقف کی ہے ، جِسے وافق نے مسجد اور غرباء کے
لیے وقف کیا تھا اُسی مصرف میں خرچ کردیں
۔
وفی الهداية
: باب فسخ الاجارة (3/247)
قال:
"وإذا مات أحد المتعاقدين وقد عقد الإجارة لنفسه انفسخت"؛ لأنه لو بقي
العقد تصير المنفعة المملوكة به أو الأجرة المملوكة لغير العاقد مستحقة بالعقد؛
لأنه ينتقل بالموت إلى الوارث وذلك لا يجوز "وإن عقدها لغيره لم تنفسخ"
مثل الوكيل والوصي والمتولي في الوقف لانعدام ما أشرنا إليه من المعنى.
وفي تبيين الحقائق : باب فسخ الاجارة (5/144)
|
وكما في
جوهرة النيرة : (1/283)
(قوله: وإذا مات أحد المتعاقدين وقد عقد
الإجارة لنفسه انفسخ العقد) أما موت المستأجر فلأن العقد اقتضى استحقاق الأجرة من
ماله فلو بقينا الإجارة بعد موته استحقت الأجرة من ملك الغير، وإن كان المؤجر هو
الذي مات فلو بقينا الإجارة بعد موته استوفيت المنافع من ملك غيره وهذا لا يجوز.
وفی الدر
المختار مع حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/445)
على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط۔
No comments:
Post a Comment