کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسمیٰ اسماعیل خان ولد ججیل ساکنہ محلہ مظفرہ
آباد کوہستان سٹریٹ تحصیل ٹیکسلا ضلع راوالپنڈی کے
ساتھ بوجہ رشتہ داری مودت و الفت لا اظہار کرتے ہوئے تعلقات قائم رکھنا کیسا ہے جبکہ مندرجہ ذیل
عقائد و نظریات کا حامل اور ان کا پرچار کرتا رہتا ہے ۔
1۔موصوف کے
مطابق پردے کی کوئی اہمیت نہیں ہے مرد و زن کا آزادانہ میل ملاپ کو قبیح بات نہین
سمجھتا ہے بلکہ اس کے مطابق عورت کوپردہ
کروانا اسے قید میں ڈالنے اور اس کی آزادی سلب کرنے کی مترادف ہے ۔
2۔ داڑھی منڈوانا باعث فخر سجھتا ہے ،داڑہی کا مذاق اُڑاتا ہے اور
انہیں معاشرے کے لیے ناسور قرار دیتا ہے ۔
3۔ پینٹ کوٹ کو بطور لباس استعمال کرتا ہے ،شلوار قمیص پر ترجیح اور مہذب سمجھتا ہے ، موصوف کے ہاں شلوار قمیص
پہننا دقیانوسیت ہے ۔
4۔ اس کے مطابق شراب ایک سوشل ڈرنک ہے اور اس کے استعمال پر پابندی عائد
کرنا فرد کی شخصی آزادی کو سلب کرنا ہے ۔
5۔ کہ موصوف بطور وکیل اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد نہیں کرتا ہے جبکہ اس
کا اٹھنا بیٹھنا جاہل اور عقیدت اسلام کے منک طبقات سے ہے اور مسلمانوں کے
خلاف استعمال ہونے کا اندیشہ ہے ۔
برائے
کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں شخص
مذکورہ کے بارے میں حکم شرعی بتایا جائے ۔ مولانا محمد جاوید حنفی سکن کوہستان کالونی مانسہرہ
﷽
الجواب
حامدا و مصلیا
مفتی غیب
نہیں جانتا ،بلکہ وہ سوال کے مطابق جواب دیتا ہے۔ سوال کے سچ یا جھوٹ ہونے کی ذمہ
داری سائل پر ہوتی ہے۔ غلط بیانی کرکے اپنے مطلب کا فتویٰ حاصل کرنے سے حرام ،
حلال نہیں ہوتا اور نہ حلال ، حرام ہوتا ہے،لہذا اگر کوئی غلط بیانی کے ذریعہ فتویٰ
حاصل کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا۔
٭ اس
تمہید کے بعد آپ کے سوالوں کا جواب یہ ہے
کہ اگر واقعۃً شخص مذکور کے ہاں پردے کی
کوئی اہمیت نہیں ، بلکہ وہ عورت سے پردہ کروانا اسے قید میں ڈالنے اور
اس کی آزادی سلب کرنے کی مترادف سمجھتے
ہیں تو انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام ایک پاکیزہ دین اور مذہب ہے ،جو اپنے
ماننے والوں کو عفت وعصمت سے بھرپور زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے۔
چنانچہ شخص مذکور کا یہ عمل شریعت
کے اصولوں ، ضروری مسائل اور حکم خداوندی کا صریح خلاف ہے ۔
سورة
الاحزاب :
يَا أَيُّهَا
النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ
عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا
يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (59)
ترجمہ:
اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور
مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے پر چادر
لٹکا لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو
ایذا نہ دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
جس پر فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالی نے کفر کا حکم تجویذ کیا ہے ۔
اس لیے اس کے مرتکب پر تجدید ایمان و تجدید
نکاح لاز م قرار دیا ہے ۔
وفي مجمع الانهر في شرح ملتقي الابحر :(1/695)
ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها
كفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
٭ آج کل معاشرے
کو داڑھی منڈوانے کی لَت لگی ہوئی ہے ،جبکہ داڑھی کا منڈوانا ناجائز و حرام، موجب فسق ہے ، اور اس کا مذاق اُڑانا ، توہین کرنا انتہائی
خطرناک ہے ۔( یعنی سنت رسول اللہ کی تحقیر کی نیت
سے مذاق اُڑانا کفر ہے) ۔
وفي مجمع الانهر في شرح ملتقي الابحر :(1/692)
ومن استخف بسنة أو حديث من أحاديثه - عليه
الصلاة والسلام - أو رد حديثا متواترا أو قال سمعناه كثيرا بطريق الاستخفاف كفر۔
کما فی
البحر الرائق: (5/130)
ويكفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وباستخفافه بسنة من السنن۔
٭ شلوار قمیص کو دقیانوسیت کہنے سے سنت یا اولیاء
کرام کا
مذاق اُڑانا ،مقصد ہوتو کفر ہے اور
پینٹ کوٹ کو پسند کرنا اور ترجیح دینا
اسے مہذب سمجھنے سے انسان گناہ گار ہوتا ہے ۔ کیوں یہ کفار و فساق کے ساتھ مشابہت کو پسند کرنا ہے ۔
و في
المرقاة المفاتيح:(7/2782)
- (وعنه) : أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله
- صلى الله عليه وسلم - (من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس
وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في
الإثم والخير.
كما في عون
المعبود وحاشية ابن قيم :(11/51)
(عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ) بِضَمِّ
الْجِيمِ وَفَتْحِ الرَّاءِ بَعْدَهَا مُعْجَمَةٌ الدِّمَشْقِيُّ ثِقَةٌ مِنَ
الرَّابِعَةِ (مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ) قَالَ الْمُنَاوِيُّ وَالْعَلْقَمِيُّ أي
تزي فِي ظَاهِرِهِ بِزِيِّهِمْ وَسَارَ بِسِيرَتِهِمْ وَهَدْيِهِمْ فِي ملبسهم
وبعض أفعالهم انتهى۔
وقال القارىء أَيْ مَنْ شَبَّهَ نَفْسَهُ
بِالْكُفَّارِ مَثَلًا مِنَ اللِّبَاسِ وَغَيْرِهِ أَوْ بِالْفُسَّاقِ أَوِ
الْفُجَّارِ أَوْ بِأَهْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الْأَبْرَارِ (فَهُوَ
مِنْهُمْ) أَيْ في الإثم والخير قاله القارىء
قَالَ الْعَلْقَمِيُّ أَيْ مَنْ تَشَبَّهَ
بِالصَّالِحِينَ يُكْرَمْ كَمَا يُكْرَمُونَ وَمَنْ تَشَبَّهَ بِالْفُسَّاقِ لَمْ
يُكْرَمْ وَمَنْ وُضِعَ عَلَيْهِ عَلَامَةُ الشُّرَفَاءِ أُكْرِمَ وَإِنْ لَمْ
يَتَحَقَّقْ شَرَفُهُ انْتَهَى۔
٭ شراب کے متعلق قرآن مجید کا حکم رجس (پلید،ناپاک)کا ہے۔چونکہ پلید و ناپاک حرام ہے ،اور احادیث مبارکہ میں اس
کی حرمت حد تواتر تک پہنچ چکیں ہیں ۔
لہذا امت محمدیہ سب کے سب کا
شراب کے حرام ہونے پر سب اتفاق ہے ۔اور
شراب کی حرمت کا انکار کفر ہے ۔
و في
الهداية : (4/394)
والثالث: أن عينها حرام غير معلول بالسكر ولا
موقوف عليه: ومن الناس من أنكر حرمة عينها۔۔۔ وهذا كفر؛ لأنه جحود
الكتاب فإنه تعالى سماه رجسا والرجس ما هو محرم العين، وقد جاءت السنة متواترة
"أن النبي عليه الصلاة والسلام حرم الخمر"؛ وعليه انعقد الإجماع۔
٭ ہر انسان کے ساتھ محبت کرنا اس کی مدد کرنا ، مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ ہے ۔
چنانچہ اسلام بیزار لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا
ایک غلط امر ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برے لوگوں کی صحبت سے منع
فرماتے ہوئے سخت وعید ارشاد فرمایا ہے ۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ اٰ یت کریمہ
کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں اسلام بیزار لوگوں کے ساتھ دوستی ان کے دین کی
وجہ سے ہو تو یہ کفر ہے اور جو دنیا میں ان سے دوستی کریگا وہ کل بروز
قیامت انہی کے ساتھ اُٹھے گا ۔
كما في
تفسير البحر المحيط :( 3/ 519)
( وَمَن يَتَوَلَّهُمْ مّنكُمْ فَإِنَّهُ
مِنْهُمْ ) قال ابن عباس : فإنه منهم في حكم الكفر ، أي ومن يتولهم في الدين .
وقال غيره : ومن يتولهم في الدنيا فإنه منهم في الآخرة .
لہذا مندرجہ بالا
سوالوں کے جوب میں ذکر کردہ تفصیل کی
تمام صورتیں آپ کے سامنے بیان کی
گئی ہیں ۔شخص مذکور کو چاہئے کہ وہ صدق دل
سے توبہ و استغفار کرے ۔ اور کسی عالم کی صحبت اختیار کرتے ہوئے اپنی اصلاح
کو شش کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط.
No comments:
Post a Comment