عمرہ کرنے کا طریقہ
شیخ القرآن والحدیث مولانا فیض الباری صاحب حفظہ اللہ
احرام
٭حج اور عمرہ زندگی میں ایک
مرتبہ واجب ہے،اور اس کے بعد مسنون ہے۔ اس کے وجوب کی چھ شرائط ہیں۔۱۔اسلام ۲۔عقل
۳۔بلوغت ۴۔آزادی ۵۔استطاعت ۶۔عورت کے لئے محرم کا ہونا۔
٭عمر ہ میں داخل ہو نے کی نیت کو احرام کہتے ہیں ۔
٭عمرہ کرنے والے کو احرام باندھتے وقت ((لبّیک عمرۃً))
یا
((اللّٰھم لبّیک عمرۃً )) کا لفظ زبان سے کہنا مستحب ہے ۔اور اگر خوف لاحق ہو یا عورتوں کے لئے ایّام مخصوصہ شروع ہونے کا اندیشہ ہو تو نیت کے ساتھ یہ دعا بھی پڑھ لیں((فان حبسنی حابس فمحلی حیث حبستنی)) ’’اگر کسی عارضہ نے مجھے روک لیا تو میری نیت وہاں تک ہی ہے ،جہاں اس نے روک لیا‘‘
٭ مرد ایک بغیر سلی تہہ بند اور ایک چادر (یعنی جو بنیان ‘موزہ ‘پائجامہ ‘ اور قمیص شلوار وغیرہ کی طرح عضو کے برابر سلی ہوئی نہ ہوں ) میں احرام باندھے گا۔اور بہتر ہے کہ چادر ولنگی دونوں سفید ہوں۔
٭احرام کی نیت کرنے سے پہلے غسل کرنا ‘خوشبو لگانا ‘اور (ناخن تراشنا ‘مونچھیں کاٹنا ‘موے زیر ناف مونڈنا ‘اور بغل کے بالوں کی ) صفائی کرنا مستحب ہے۔
٭احرام کی دو رکعت کے نام سے دو رکعت نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے ۔ہاں اگر فرض نماز کے وقت اتفاقاًاحرام باندھنا پڑ جائے تو پہلے فرض نماز پڑھ لے پھر احرام باندھ لے۔
٭احرام باندھنے کے بعد تلبیہ پکارنا یعنی (( لبّیک اللھم لبیک۔لبیک لا شریک لک لبیک۔ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک))’’میں حاضر ہوں ‘ اے اللہ میں حاضر ہوں ‘ میں حاضر ہوں ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ‘ یقینا سب تعریف تیرے ہی لئے ہے ‘ ساری نعمتیں تیری ہی ہیں ‘ اور ساری بادشاہت تیری ہی ہے ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ۔‘‘کہنا مسنون ہے ۔مرد بلند آواز سے پکاریں گے اور عورتیں پست آواز سے۔
٭طواف شروع کرتے وقت عمرہ کرنے والا تلبیہ کہنے یعنی’’ لبیک‘‘ پکارنے سے رک جائیگا ۔
٭احرام کا لباس اگر میلا ہو جائے تو اس کو نکالنا اور بدلنا جائز ہے ۔اور احرام کا لباس محرم کو اپنے گھر میں سفر سے پہلے پہننا جائز ہے ۔لیکن احرام کی نیت میقات کے پاس ہی کرے گا ۔
٭عورت کے لئے احرام کا کو ئی مخصوص رنگ کا لباس نہیں ‘ جیسے کالا یا سبز ‘ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ۔
٭محرمہ عورت کے لئے دستانے پہننا ‘ یا نقاب لگانا ‘ جائز نہیں۔اس لئے کہ یہ دونوں عضو کے برابر سلے گئے ہیں ۔اور آپ ﷺ کا فرمان ہے :’’محرمہ عورت نہ نقاب لگائے اور نہ دستانے پہنے ‘‘ [بخاری]لیکن وہ اجنبی مردوں سے اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دستانے اور نقاب کے علاوہ دوسرے کپڑے سے چھپائے رکھے گی ۔
٭طواف کعبہ کے سات چکر
لگانے ہیں ۔ہر چکر حجر اسودکے سامنے سے شروع ہو گا اور اسی پر ختم ہو گا۔
٭عمرہ کرنے والا طواف کے دوران کعبہ کو اپنی بائیںجانب رکھے گا۔
٭عمرہ کرنے والے کو طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کرنا مسنون ہے۔رمل ’’قریب قریب قدم رکھ کر تیز چلنے کو ‘‘کہتے ہیں۔
٭ اسی طرح پورے طواف میں اضطباع کرنا سنت ہے ۔ اضطباع ’’اپنی چادر کے درمیانی حصہ کواپنے داہنے کندھے کے نیچے کرنے ‘ اوراس کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر رکھنے کو ‘‘کہتے ہیں ۔
٭عمرہ کرنے والا جب طواف سے فارغ ہو جائے تو اضطباع ختم کر دیگا ۔
٭طوا ف کرنے والے کو حجر اسود کا استلام کرنا ‘ یعنی اپنے ہاتھ سے اس کو چھونا ‘اور اس کے پاس سے گزرتے وقت اس کو بوسہ دینا مسنون ہے ۔اگر بوسہ نہ دے سکے تو اپنے ہاتھ سے اس کو چھوئے اور اپنے ہاتھ کو بوسہ دے ‘ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی چیز سے جو اس کے پاس ہو جیسے چھڑی وغیرہ سے اس کو چھوئے لیکن اس چیز کو بوسہ نہ دے ‘ اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تودور سے ہی اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرے مگر ہاتھ کو بوسہ نہ دے ۔
٭طواف میں حجر اسود کو چھوتے وقت یا اس کی طرف اشارہ کرتے وقت ’’اللّٰہ اکبر‘‘کہنا مسنون ہے ۔
٭طواف کرنے والے کے لئے رکن یمانی کو اپنے ہاتھ سے چھونامسنون ہے۔نہ کہ بوسہ دینا۔ اگر بھیڑ کی وجہ سے اس کو چھو نہ سکے تو اشارہ نہیں کرے گا۔
٭دونوں رکن شامی کو بوسہ دینا ‘ یا ان کی طرف اشارہ کرنا مشروع نہیں ۔کیو نکہ اللہ کے نبی ﷺ سے ثابت نہیں۔
٭حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان ((رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ))پڑھنا مستحب ہے۔
٭طواف کے ہر چکر کے لئے کوئی خاص ذکر یا دعا ثابت نہیں ۔بلکہ دوران طواف قرآن پڑھنا یا اللہ کے نبی ﷺ سے وارد شدہ دعائوں میں سے دعا کرنا جائز ہے۔
٭طواف کے لئے وضو شرط ہے۔اگر طواف کی حالت میں وضوٹوٹ جائے تودوبارہ وضوکرے گا اور از سر نو پورا طواف دہرائے گا۔
٭اگر حالت طواف میں فرض نماز کھڑی ہو جاتی ہے تو وہ نمازیوں کے ساتھ نماز پڑھے گا ‘ پھر اپنا بقیہ طواف پورا کرے گا ۔
٭جس کو طواف کے چکروں میں شک پڑ جائے کہ کتنے چکر لگائے ہیں تو وہ کم تعداد کو راجح قرار دے کر بقیہ چکر پورے کر لے۔
٭طواف کے بعد مقام ابراہیم
کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے ‘ پہلی رکعت میں (سورہ فاتحہ کے بعد )سورہ
کافرون اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھے گا۔
٭مقام ابراہیم کے پاس نماز کے لئے جاتے ہوئے اللہ کا فرمان(( وَاتَّخِذُوْامِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی))’’تم مقام ابراہیم کو جا ئے نماز مقرر کر لو‘‘ پڑھنا مسنون ہے۔
٭اگر بھیڑ کی وجہ سے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نہ پڑھ سکے تو مسجد کے کسی دوسرے حصہ میں پڑھ لے ۔
٭دو رکعت نماز سے فراغت کے بعد آب زمزم پینا مستحب ہے۔
٭سعی :
صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر ہیں۔صفا سے شروع کرے گا اور مروہ پر ختم کرے گا۔
٭پہلے چکر میں صفا کے قریب ہوتے وقت اللہ کا فرمان((اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِاللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِاعْتَمَرَفَلا َجُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْراً فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌعَلِیْمٌ))کو پڑھنا ۔
اور اس کے بعد ((أبدابما بدأاللّٰہ بہ))کا کہنا مسنون ہے ۔اور یہ صرف سعی کے پہلے چکر میں کہے گا ۔
٭صفا پر اتنا چڑھنا مستحب ہے کہ کعبہ کو دیکھ لے اور اپنے دونوں ہاتھ یہ دعا پڑھتے ہو ئے اٹھائے((اللّٰہ أکبر‘اللّٰہ أکبر‘اللّٰہ أکبر)) اس کے بعد تین مرتبہ ۔((لا الٰہ الاّ اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھوعلٰی کلّ شییئٍ قدیر،لا الٰہ الاّ اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ أنجز وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ ))اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔
٭جب مروہ پر جائے تو بھی یہی دعا پڑھنے کے بعد اپنی جو چاہے دعا کرے۔
٭سعی کرنے والا جب دو سبز نشانوں کے درمیان سے گزرے تو اس شرط کیساتھ تیزی سے چلے کہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔با قی سعی کی جگہ میں عام چال چلے۔
٭سعی کے دوران اس کا احرام اس کے دونوں کندھوں پر رہے گا۔
٭اگر دوران سعی نماز کھڑی ہو جائے تو پہلے نماز پڑھ لے پھر اپنی بقیہ سعی مکمل کر لے ۔
٭سعی میں کوئی خاص دعا یا ذکر نہیں بلکہ جو چاہے دعا کر سکتا ہے۔
٭سعی کے لئے اگرچہ وضوشرط نہیں لیکن با وضوہونا افضل ہے ۔
٭سر کے بال منڈوانا یا
چھوٹے کروانا عمرہ کے واجبات میں سے ہے ۔بالوں کو منڈوانا ان کو چھوٹا کروانے سے
افضل ہے ۔نبی کریم ﷺ نے بال منڈوانے والوں کے لئے تین بار دعا فرمائی ‘ اور چھوٹا
کروانے والوں کے لئے ایک بار۔
٭سر کی تمام جانب سے پورے طور پر بال چھوٹا کرانا ضروری ہے ۔ایک طرف کے چھوٹے کرانا جبکہ دوسری طرف کے چھوڑ دینا کافی نہیں۔
٭عورت اپنے سر کے بال چھوٹے کروائے گی اور وہ اس طرح کہ اپنے بالوں کی ہر چوٹی سے انگلی کے سرے کے برابر کاٹ لے گی ۔
٭بال منڈوا لینے یا چھوٹا کروا لینے کے بعد عمرہ کرنے والا اپنے احرام سے حلال ہو جائیگا ۔اور اس سے اس کا عمرہ پورا ہو جائیگا ۔
٭مسجد نبوی کی زیارت کرنا مسنون ہے۔لیکن عمرہ کے سا تھ اس کا کوئی تعلق نہیں،بلکہ عمرہ کے تمام مناسک بیت اللہ میں ہی ادا ہوتے ہیں۔
٭عورتوں کے لئے قبروں کی زیارت حرام ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((لَعَنَ اللّٰہُ زَوّارَاتِ الْقُبُوْرِ))’’اللہ تعالیٰ قبروں کی زیارت کرنے والیوں پر لعنت کرے۔‘‘لہذا عورتوں کو شہداء ِاحد کی قبور اور جنت البقیع میں نہیں جانا چاہئیے۔
٭سب سے آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہر اچھی بات کو سننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
٭عمر ہ میں داخل ہو نے کی نیت کو احرام کہتے ہیں ۔
٭عمرہ کرنے والے کو احرام باندھتے وقت ((لبّیک عمرۃً))
یا
((اللّٰھم لبّیک عمرۃً )) کا لفظ زبان سے کہنا مستحب ہے ۔اور اگر خوف لاحق ہو یا عورتوں کے لئے ایّام مخصوصہ شروع ہونے کا اندیشہ ہو تو نیت کے ساتھ یہ دعا بھی پڑھ لیں((فان حبسنی حابس فمحلی حیث حبستنی)) ’’اگر کسی عارضہ نے مجھے روک لیا تو میری نیت وہاں تک ہی ہے ،جہاں اس نے روک لیا‘‘
٭ مرد ایک بغیر سلی تہہ بند اور ایک چادر (یعنی جو بنیان ‘موزہ ‘پائجامہ ‘ اور قمیص شلوار وغیرہ کی طرح عضو کے برابر سلی ہوئی نہ ہوں ) میں احرام باندھے گا۔اور بہتر ہے کہ چادر ولنگی دونوں سفید ہوں۔
٭احرام کی نیت کرنے سے پہلے غسل کرنا ‘خوشبو لگانا ‘اور (ناخن تراشنا ‘مونچھیں کاٹنا ‘موے زیر ناف مونڈنا ‘اور بغل کے بالوں کی ) صفائی کرنا مستحب ہے۔
٭احرام کی دو رکعت کے نام سے دو رکعت نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے ۔ہاں اگر فرض نماز کے وقت اتفاقاًاحرام باندھنا پڑ جائے تو پہلے فرض نماز پڑھ لے پھر احرام باندھ لے۔
٭احرام باندھنے کے بعد تلبیہ پکارنا یعنی (( لبّیک اللھم لبیک۔لبیک لا شریک لک لبیک۔ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک))’’میں حاضر ہوں ‘ اے اللہ میں حاضر ہوں ‘ میں حاضر ہوں ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ‘ یقینا سب تعریف تیرے ہی لئے ہے ‘ ساری نعمتیں تیری ہی ہیں ‘ اور ساری بادشاہت تیری ہی ہے ‘ تیرا کوئی شریک نہیں ۔‘‘کہنا مسنون ہے ۔مرد بلند آواز سے پکاریں گے اور عورتیں پست آواز سے۔
٭طواف شروع کرتے وقت عمرہ کرنے والا تلبیہ کہنے یعنی’’ لبیک‘‘ پکارنے سے رک جائیگا ۔
٭احرام کا لباس اگر میلا ہو جائے تو اس کو نکالنا اور بدلنا جائز ہے ۔اور احرام کا لباس محرم کو اپنے گھر میں سفر سے پہلے پہننا جائز ہے ۔لیکن احرام کی نیت میقات کے پاس ہی کرے گا ۔
٭عورت کے لئے احرام کا کو ئی مخصوص رنگ کا لباس نہیں ‘ جیسے کالا یا سبز ‘ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ۔
٭محرمہ عورت کے لئے دستانے پہننا ‘ یا نقاب لگانا ‘ جائز نہیں۔اس لئے کہ یہ دونوں عضو کے برابر سلے گئے ہیں ۔اور آپ ﷺ کا فرمان ہے :’’محرمہ عورت نہ نقاب لگائے اور نہ دستانے پہنے ‘‘ [بخاری]لیکن وہ اجنبی مردوں سے اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دستانے اور نقاب کے علاوہ دوسرے کپڑے سے چھپائے رکھے گی ۔
طواف
٭عمرہ کرنے والا طواف کے دوران کعبہ کو اپنی بائیںجانب رکھے گا۔
٭عمرہ کرنے والے کو طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کرنا مسنون ہے۔رمل ’’قریب قریب قدم رکھ کر تیز چلنے کو ‘‘کہتے ہیں۔
٭ اسی طرح پورے طواف میں اضطباع کرنا سنت ہے ۔ اضطباع ’’اپنی چادر کے درمیانی حصہ کواپنے داہنے کندھے کے نیچے کرنے ‘ اوراس کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر رکھنے کو ‘‘کہتے ہیں ۔
٭عمرہ کرنے والا جب طواف سے فارغ ہو جائے تو اضطباع ختم کر دیگا ۔
٭طوا ف کرنے والے کو حجر اسود کا استلام کرنا ‘ یعنی اپنے ہاتھ سے اس کو چھونا ‘اور اس کے پاس سے گزرتے وقت اس کو بوسہ دینا مسنون ہے ۔اگر بوسہ نہ دے سکے تو اپنے ہاتھ سے اس کو چھوئے اور اپنے ہاتھ کو بوسہ دے ‘ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی چیز سے جو اس کے پاس ہو جیسے چھڑی وغیرہ سے اس کو چھوئے لیکن اس چیز کو بوسہ نہ دے ‘ اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تودور سے ہی اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرے مگر ہاتھ کو بوسہ نہ دے ۔
٭طواف میں حجر اسود کو چھوتے وقت یا اس کی طرف اشارہ کرتے وقت ’’اللّٰہ اکبر‘‘کہنا مسنون ہے ۔
٭طواف کرنے والے کے لئے رکن یمانی کو اپنے ہاتھ سے چھونامسنون ہے۔نہ کہ بوسہ دینا۔ اگر بھیڑ کی وجہ سے اس کو چھو نہ سکے تو اشارہ نہیں کرے گا۔
٭دونوں رکن شامی کو بوسہ دینا ‘ یا ان کی طرف اشارہ کرنا مشروع نہیں ۔کیو نکہ اللہ کے نبی ﷺ سے ثابت نہیں۔
٭حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان ((رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ))پڑھنا مستحب ہے۔
٭طواف کے ہر چکر کے لئے کوئی خاص ذکر یا دعا ثابت نہیں ۔بلکہ دوران طواف قرآن پڑھنا یا اللہ کے نبی ﷺ سے وارد شدہ دعائوں میں سے دعا کرنا جائز ہے۔
٭طواف کے لئے وضو شرط ہے۔اگر طواف کی حالت میں وضوٹوٹ جائے تودوبارہ وضوکرے گا اور از سر نو پورا طواف دہرائے گا۔
٭اگر حالت طواف میں فرض نماز کھڑی ہو جاتی ہے تو وہ نمازیوں کے ساتھ نماز پڑھے گا ‘ پھر اپنا بقیہ طواف پورا کرے گا ۔
٭جس کو طواف کے چکروں میں شک پڑ جائے کہ کتنے چکر لگائے ہیں تو وہ کم تعداد کو راجح قرار دے کر بقیہ چکر پورے کر لے۔
مقام ابراہیم
٭مقام ابراہیم کے پاس نماز کے لئے جاتے ہوئے اللہ کا فرمان(( وَاتَّخِذُوْامِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلّٰی))’’تم مقام ابراہیم کو جا ئے نماز مقرر کر لو‘‘ پڑھنا مسنون ہے۔
٭اگر بھیڑ کی وجہ سے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نہ پڑھ سکے تو مسجد کے کسی دوسرے حصہ میں پڑھ لے ۔
٭دو رکعت نماز سے فراغت کے بعد آب زمزم پینا مستحب ہے۔
سعی
٭پہلے چکر میں صفا کے قریب ہوتے وقت اللہ کا فرمان((اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِاللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِاعْتَمَرَفَلا َجُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْراً فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌعَلِیْمٌ))کو پڑھنا ۔
اور اس کے بعد ((أبدابما بدأاللّٰہ بہ))کا کہنا مسنون ہے ۔اور یہ صرف سعی کے پہلے چکر میں کہے گا ۔
٭صفا پر اتنا چڑھنا مستحب ہے کہ کعبہ کو دیکھ لے اور اپنے دونوں ہاتھ یہ دعا پڑھتے ہو ئے اٹھائے((اللّٰہ أکبر‘اللّٰہ أکبر‘اللّٰہ أکبر)) اس کے بعد تین مرتبہ ۔((لا الٰہ الاّ اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھوعلٰی کلّ شییئٍ قدیر،لا الٰہ الاّ اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ أنجز وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ ))اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔
٭جب مروہ پر جائے تو بھی یہی دعا پڑھنے کے بعد اپنی جو چاہے دعا کرے۔
٭سعی کرنے والا جب دو سبز نشانوں کے درمیان سے گزرے تو اس شرط کیساتھ تیزی سے چلے کہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔با قی سعی کی جگہ میں عام چال چلے۔
٭سعی کے دوران اس کا احرام اس کے دونوں کندھوں پر رہے گا۔
٭اگر دوران سعی نماز کھڑی ہو جائے تو پہلے نماز پڑھ لے پھر اپنی بقیہ سعی مکمل کر لے ۔
٭سعی میں کوئی خاص دعا یا ذکر نہیں بلکہ جو چاہے دعا کر سکتا ہے۔
٭سعی کے لئے اگرچہ وضوشرط نہیں لیکن با وضوہونا افضل ہے ۔
بال منڈوانا یا چھوٹے کروانا
٭سر کی تمام جانب سے پورے طور پر بال چھوٹا کرانا ضروری ہے ۔ایک طرف کے چھوٹے کرانا جبکہ دوسری طرف کے چھوڑ دینا کافی نہیں۔
٭عورت اپنے سر کے بال چھوٹے کروائے گی اور وہ اس طرح کہ اپنے بالوں کی ہر چوٹی سے انگلی کے سرے کے برابر کاٹ لے گی ۔
٭بال منڈوا لینے یا چھوٹا کروا لینے کے بعد عمرہ کرنے والا اپنے احرام سے حلال ہو جائیگا ۔اور اس سے اس کا عمرہ پورا ہو جائیگا ۔
٭مسجد نبوی کی زیارت کرنا مسنون ہے۔لیکن عمرہ کے سا تھ اس کا کوئی تعلق نہیں،بلکہ عمرہ کے تمام مناسک بیت اللہ میں ہی ادا ہوتے ہیں۔
٭عورتوں کے لئے قبروں کی زیارت حرام ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((لَعَنَ اللّٰہُ زَوّارَاتِ الْقُبُوْرِ))’’اللہ تعالیٰ قبروں کی زیارت کرنے والیوں پر لعنت کرے۔‘‘لہذا عورتوں کو شہداء ِاحد کی قبور اور جنت البقیع میں نہیں جانا چاہئیے۔
٭سب سے آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہر اچھی بات کو سننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین
No comments:
Post a Comment