کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے
میں کہ میں نے ملک افضل شاہجہان سے چھ سال پہلے ایک کنال زمین
خریدی تھی جس میں سے چار مرلہ اس کی تھی اور سولہ مرلہ اس کی بہن کی تھی جواسکی اجازت کے بغیر بیچا تھا ۔اب اس کی بہن وہ زمین فروخت کرنا نہیں چاہتی ہے ۔ اور ملک افضل
شاہجہان مجھ سے زمین واپس مانگ رہا ہے ،کیا مجھ پر شرعا واپس کرنا لازم ہے ؟اور
واپسی کی صورت میں مجھے
کونسی قیمت لینے کا حق ہے خریدی یوئی
قیمت کا یا موجودہ قیمت جو کہ اس وقت کی قیمت سے زیادہ ہے ۔
المستفتی
: محمد حسن
بسم
اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب
حامدا و مصلیا
واضح
رہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر جو معاملہ
کیا جائے وہ شرعا معتبر نہیں ہوتا ہے۔ تاہم اگر
ملک افضل شاہجہان نے آپ پر جو
زمین فروخت کی تھی اس میں سے سولہ مرلہ اُس کی بہن کی تھی اور وہ
بیچنا نہیں چاہتی تھی تو اس کے حصہ میں خرید و فروخت شرعا جائز نہیں ہے ۔
لہذا صورت مسؤلہ
میں آپ نے جو زمین خریدی ہے جِس میں سے
چار مرلہ ملک افضل شاہجہان کی ہے اور
سولہ مرلہ اس کی بہن کی جسِے وہ فروخت
کرنا نہیں چاہتی ہے تو ملک
افضل کے حصہ(چار مرلہ) میں آپ کا یہ معاملہ صحیح
ہوا ہے اور اُس کے آپ مالک بن گئے ہیں۔ اورملک افضل کی بہن کا
حصہ اُس کی اجازت کے بغیر خریدنے سے آپ
مالک نہیں ہوئے ہیں ۔اور آپ کو ملک افضل سے
اس سولہ مرلہ زمین کی قیمت (جس پر آپ نے
خریدا تھا) وصول کرنے کا حق حاصل ہے ۔
و في مشكوة المصابيح:(2/165)
وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال : قال رسول الله
صلى الله عليه وسلم : " ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه
" . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى ۔
دررالحكام
في شرح مجلة الاحكام: (1/96)
(لا يجوز لأحد التصرف في مال
غيره بلا إذنه ولا ولايته)۔
و في
الفتاوي الهندية :(3/152)
أما شرائط الانعقاد۔۔۔ ومنها في
المبيع۔۔۔ وأن يكون مملوكا في نفسه ۔۔۔ولا بيع ما ليس مملوكا له۔
و فی
الجوهرة النيرة:(3/109)
( قوله :
ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا
بإذنه وكل واحد منهما في نصيب صاحبه كالأجنبي ) لأن تصرف الإنسان في مال غيره لا
يجوز إلا بإذن أو ولاية .
وفي الهداية
: (3/68)
قال:
"ومن باع ملك غيره بغير أمره فالمالك
بالخيار، إن شاء أجاز البيع؛ وإن شاء فسخ"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط.
واللہ
سبحانہ وتعالیٰ أعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment