یہ علاج
اچھا ہے اے قاتل ترے بیمار کا
دم بدم تو خلق میں پانی چُوا تلوار کا
کیوں ارادہ ہے ترا مجھ سخت جاں پر وار کا
دم نکل جائے گا اے قاتل تری تلوا رکا
آہ سے ہو سامنا کیونکر نگاہِ یار کا
روکنا دشوار ہے تلوار سے تلوار کا
سخت جاں پر شرم ست مُنہ پھر گیا تلوار کا
یہ پسینہ ہے کہ پانی ہے تری تلوا رکا
گرچہ بسمل ہوں مگر دیکھا نہیں جاتا ذرا
آنسوؤں سے خون کے رونا تری تلوا رکا
کیا محبت زخمِ دل کو ہے کہ ہر اک وار پر
پیار سے مُنہ چوم لیتا ہے تری تلوار کا
خوں کتنوں کا پیا ہے تیغ خون آشام نے
وزن سیروں بڑھ گیا قاتل تری تلوا رکا
کیا رگ ِ بسمل میں تھا سوزِ محبت کا اثر
آگ پانی ہو گیا قاتل تری تلوا رکا
غسل کر لے دل ہمارا جان بھی کر لے وضو
اسقدر قاتل بڑھے پانی تری تلوا رکا
بزم بھی مقتل نہ ہو جائے الٰہی خیر ہو
کھول کر بیٹھے ہیں بیڑا آج وہ تلوا رکا
لذتِ زخم جگر میں رہ گئی تھوڑی کسر
وار کچھ اوچھا پڑا قاتل تری تلوا رکا
جان دی مقتول نے تیرے بڑی تلخی کے ساتھ
زہر پانی ہو گیا قاتل تری تلوا رکا
یہ اثر دیکھا زبان کے ساتھ کٹ جاتے ہیں حرف
ذکر آ جاتا ہے جب قاتل تری تلوار کا
داورِ محشر کو اے قاتل دکھانا ہے مجھے
زخم ہے یہ تیر کا یہ گھاؤ ہے تلوار کا
ہے گریباں کی یہ صورت دیدۂ خونبار سے
رنگ دیکھا خون میں ڈوبی ہوئی تلوار کا
کاٹنا مشکل ہے میرے ہی گلوئے سخت کو
مانتا ہے کوہ بھی لوہا تری تلوار کا
دیکھ اے قاتل مرے سوز و گداز عشق سے
گھُل کے پانی ہو گیا لوہا تری تلوار کا
اور اے قاتل زمانے میں کہاں تیرا جواب
تُک گردوں نام لیوا ہے تری تلوار کا
زندگی کے ساتھ ہی رہتا ہے شوقِ وصل بھی
تجھ سے بہتر ہے گلے ملنا تری تلوار کا
داغ گنجائش ابھی اس قافیہ میں ہے بُہت
گرچہ ہر مضمون اچھا بندھ گیا تلوار کا
No comments:
Post a Comment